تحقیقات کی تو پورا ڈی ایچ اے فارغ ہوجائیگا ،ساتھ ہم بھی ،چیف جسٹس

133

کراچی(نمائندہ جسارت) چیف جسٹس آف پاکستانجسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہمیں ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی(ڈی ایچ اے)کی تمام کہانی بھی معلوم ہے، جائزہ لیں تو سارا غیرقانونی نکلے گا، پورا ڈی ایچ اے فارغ ہوجائے گااورساتھ میں بھی فارغ ہوجائوں گا لیکن مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ، میں قانون کی حکمرانی چاہتا ہوں، ہمیں قانون ہی پرچلنا ہے۔چیف جسٹس نے یہ ریمارکس کراچی میں غیر قانونی تجاوزات، پارکوں پر قبضوں اور شہر کی خوبصورتی سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے
دوران دیے۔چیف جسٹس نے کنٹونمنٹ بورڈ کے وکیل سے کہا کہ آپ انگریزی بول کر ہمیں خوش نہیں کرسکتے ،آپ کو باہر سے بلایا گیا تاکہ آپ کو پتا ہی نہ ہو زمینی حقائق کیا ہیں ۔ جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ مین روڈ پر 5,5کروڑ روپے کے فلیٹس بکے ہیں، جسٹس گلزار احمدنے ڈائریکٹر لینڈ کنٹونمنٹ کی سر زنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں نے خزانے بھر لیے اور کہتے ہیں غیرقانونی تعمیرات ہیں ،اس وقت آنکھیں بند تھیں جب پیسے بٹور رہے تھے، اب کہہ رہے غیرقانی عمارتیں بن گئیں ، اس قدر برا حال ہوگیا ہے ،آپ لوگ آنکھیں بند کرکے چلتے ہیں ؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں پر اعتبار کرکے سرکاری زمینیں حوالے کی گئی تھیں ، آپ لوگوں نے اس ٹرسٹ کے ساتھ کیا کیا ؟کیا کنٹونمنٹ کی حکومت ہے جو وہ اپنی مرضی سے کام کریں، کیا کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ اپنی پوزیشن واضح کرسکتا ہے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل انور منصور خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دہلی کالونی، پنجاب کالونی اور گذری میں تعمیر کی گئیں ملٹی اسٹوری عمارتیں گرانی ہوں گی۔ انہوں نے کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے حکام سے سوال کیا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کے قانون کے تحت رہائشی علاقوں میں کتنی منزلہ عمارت بنائی جا سکتی ہے؟ کنٹونمنٹ بورڈ کے افسران نے بتایا کہ گراؤنڈ پلس 2 منزلہ کی اجازت ہوتی ہے اور کمرشل علاقے میں زیادہ سے زیادہ 5منزلہ عمارتوں کی اجازت ہے۔کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے ڈائریکٹر لینڈ نے تسلیم کیا کہ کئی غیر قانونی عمارتیں بنی ہوئی ہیں اور غیر قانونی عمارتوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہاں پر کنٹونمنٹ تو نہیں رہا اب کچھ اور ہو گیا ہے۔ساحل سمندر کے قریب نیلم کالونی کے نزدیک ٹی این ٹی کالونی کی تعمیر پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مذکورہ کالونی تو وفاقی محکموں کے ملازمین کے کواٹرز ہیں اس کے علاوہ غیر قانونی تجاوزات ختم کریں گے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کی زمین پر تمام غیر قانونی تجاوزات ختم کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔چیف جسٹس نے قرار دیا کہ کراچی میگا پرابلم سٹی بن چکا ہے‘ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور شہری سمیت کوئی حکومت کام نہیں کررہی،اب عدالت کس کو طلب کرے، کراچی کے مسائل سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے دریافت کیا کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف قانون سازی کیوں نہیں کرتے۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ’ہم قانون بنائیں گے‘۔چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اب ہم کوئی کمیٹی یا کمیشن نہیں بنائیں گے،آپ خود قانون پر عمل کریں،جس پر حکومت سندھ کے وکیل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اگر وہ سندھ حکومت پر انحصار کریں گے تو وائٹ واش نظر آئے گا،اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ آپ ہی کرسکتے ہیں۔ اگر اب بھی کچھ نہیں ہوا تو 20 سال کے بعد آنے والے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل بھی یہاں آ کر یہی باتیں کریں گے۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کے لیے حکومت نے ٹریک کے 6 ہزار لوگوں کو بے گھر کیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ اس کو ووٹوں کے زاویے سے دیکھ رہے ہیں، ہم ایسا نہیں کریں گے، اگر آپ کو ان کی اتنی پریشانی ہے تو ان کی آباد کاری کے لیے قانون سازی کریں۔جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ’آپ نے تو تھانے بھی کرائے پر دے دیے ہیں، بحریہ ٹاؤن اور دیگر اداروں کو جب زمین الاٹ کر رہے تھے اس وقت کھیل کے میدانوں اور پارکوں کے لیے زمین کیوں نہیں رکھی گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کی کیا کوئی کمیٹی بنی ہوئی ہے جس پر چیف سیکرٹری نے انہیں بتایا کہ کمیٹی نے کام شروع کردیا ہے اور انہوں نے اپنی سفارشات کابینہ کو بھیج دی ہیں لیکن اس میں وقت لگے گا۔شہری تنظیم کے امبر علی بھائی نے الزام عاید کیا کہ ’کمیٹی میں شامل لوگ خود قبضوں میں ملوث ہیں‘ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب کس پر اعتماد کریں۔عدالت نے شہر کو جدید طرز پر استوار کرنے اور نیا ڈیزائن تیار کرنے کی ہدایت کی اور 21 فروری کو رپورٹ طب کر لی۔عدالت نے کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کی زمین پر کوئی بھی ہاؤسنگ سوسائٹی نہ بنانے کا حکم جاری کیا اور کے پی ٹی حکام کو غیر قانونی تجاوزات ختم کرانے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے مشورہ دیا کہ کچی آبادیوں کے رہائشیوں کو ملٹی اسٹوری عمارتیں بنا کر اس میں منتقل کریں۔ جسٹس فیصل عرب نے حکام سے سوال کیا کہ کچی آبادیوں کے بارے میں ملائیشیا فارمولے کے بارے میں کسی کو علم ہے کہ کوالالمپور کو کس طرح صاف کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ لائنز ایریا کی کچی آبادیاں ختم کریں جو ’قائد اعظم کے مزار کے پاس جھومر کی طرح لٹک رہی ہیں‘۔ انہوں نے طنزیہ ریمارکس دیے کہ شاہراہ قائدین کا نام تبدیل کر کے کچھ اور رکھ دیں۔عدالت نے کالا پل کے دونوں اطراف میں جھگیاں اور چار دیواری ختم کرنے کا بھی حکم جاری کیا اور حکم دیا کہ تین ماہ میں یہاں خوبصورت پارک بنایا جائے۔ چیف جسٹس نے ہاکس بے پر ساحل سمندر کے ساتھ بنے ہوئے تمام گھروں کو قبضہ قرار دیا اور انہیں بھی ہٹانے کا حکم جاری کیا۔