ڈی جی’’ ایس بی سی اے‘‘ برطرف‘ ریلوے اراضی پر تجاوزات گرادی جائیں‘ چیف جسٹس

833

کراچی ( اسٹاف رپورٹر)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کے حکم پرسندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے ڈائریکٹر جنرل ظفر احسن کو عہدے سے برطرف کردیا گیا۔عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں درخواستوں کی سماعت کے دوران یہ حکم سامنے آیا۔عدالت نے قرار دیا کہ جگہ جگہ قبضہ اور چائنا کٹنگ کردی گئی‘ یہ سب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اعلیٰ افسران کی ملی بھگت سے ہوا ہے۔ عدالت نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ تمام معاملات خود دیکھیں اور کسی ایماندار افسر کو تعینات کیا جائے۔ جمعرات کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے کراچی رجسٹری میں کراچی سرکلر ریلوے، غیرقانونی تعمیرات، تجاوزات، زمینوں پر قبضے و دیگر معاملات پر سماعت کی۔ اس دوران وفاقی و سندھ حکومت کے نمائندے، سیکرٹری ریلوے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ، چیف سیکرٹری سندھ، سیکرٹری بلدیات، میئر کراچی، کمشنر کراچی سمیت دیگر حکام پیش ہوئے۔عدالت کی سماعت سے قبل عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری کے باہر مختلف افراد جمع ہوئے اور اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج کیا، جس کے بعد چیف جسٹس کے حکم پر عدالت عظمیٰ کے اسٹاف نے ان کی درخواستیں جمع کیں۔بعد ازاں سرکلر ریلوے اور لوکل ٹرین کی بحالی سے متعلق معاملے کی سماعت کی ہوئی۔کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر مشتاق سومرو پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں عدالت سے باہر نکال دیااور کہا کہ کسی کو شہریوں کا ستیصال نہیں کرنے دیں گے۔چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ سرکلر ریلوے اور لوکل ٹرین کی بحالی سے متعلق حکم پر عمل درآمد ہوا کہ نہیں؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے 5 ستمبر 2019 ء کا حکم پڑھ کر سنایا۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ عدالت نے ایک ماہ میں سرکلر اور لوکل ٹرین بحال کرنے کا حکم دیا تھا، ہم نے اس حوالے سے بریفنگ دی تھی، یہ پروجیکٹ اب سی پیک میں شامل ہوچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم فریم ورک مکمل کرکے وفاقی حکومت کو 3 دفعہ بھیج چکے ہیں، جس پر سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ ہم تاخیر نہیں کر رہے جو ذمے داری ہے پوری کر رہے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت سرکلر ریلوے چلانا ہی نہیں چاہتی۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ ابھی وزیراعلیٰ سندھ اور سیکرٹری ریلوے کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہیں، میئر کراچی اور کمشنر کراچی کو بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ چلیں میرے ساتھ میں بتاتا ہوں کہ کیسے کام ہوتا ہے، آپ لوگ ذمے داری پوری نہیں کرنا چاہتے، اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ سیکرٹری (ریلوے) غلط بیانی کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ تجاوزات کا خاتمہ اور زمین سندھ حکومت کے حوالے کرنا ریلوے کی ذمے داری تھی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا بھی یہی عالم ہوگا، آج کچھ کہہ رہے ہیں، کل کچھ اور کہیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگ صرف اپنا سیاسی ایجنڈا اور سیاسی مصلحت کی وجہ سے یہ نہیں کررہے، اسی دوران عدالت میں موجود وکیل بیرسٹر فیصل صدیقی نے بتایا کہ امیروں کی عمارتیں نہیں گرائی گئیں بلکہ صرف غریبوں کو بے گھر کردیا گیا۔فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ 6 ہزار 500 لوگوں کو بے گھر کردیا گیا ہے، بڑے بڑے پلازے نہیں گرائے جارہے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کو کس نے اختیار دیا تھا کہ جاکر قبضہ کریں۔ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ نہیں گرائیں گے ان کا مفاد ہی اسی میں ہے، جائیں ابھی جاکر بلڈوزر چلادیں سب غیرقانونی عمارتوں پر (لیکن) آپ لوگ، لوگوں کو سہولت ہی نہیں دینا چاہتے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حسن اسکوائر پر دیکھیں کیا کچھ بن گیا ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے سیکرٹری ریلوے کی سخت سرزنش کی اور ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے بابو کی طرح بات نہ کریں، کہانیاں مت سنائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے نہیں چلے گا ہمیں صرف یہ بتائیں کہ سرکلر ریلوے کیوں نہیں چلا، اس پر سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ سندھ حکومت رکاوٹ ہے، جس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا سندھ حکومت کی ذمے داری ہے؟اس دوران سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ معاہدے کے مطابق اب سندھ حکومت کی ذمے داری ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی وزیراعلیٰ کو بلا کر پوچھتے ہیں کہ کس کی ذمے داری ہے۔عدالت نے سیکرٹری ریلوے سے پوچھا کہ آپ بتائیں سرکلر ریلوے کی زمین آپ نے سندھ حکومت کو دے دی؟ جب آرڈر پاس ہوا تھا تو ساری چیزیں موجود تھیں آپ ان مسائل کے بارے میں نہیں جانتے تھے؟جس پر سیکرٹری ریلوے نے عدالت میں کہا کہ گرین لائن بن گئی ہے لیکن سرکلر ریلوے نہیں چل سکتی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ برسوں سے صرف اجلاس چل رہے ہیں لیکن اب تک کوئی حل نہیں نکالا گیا۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ایک اور معاملے پر کہا کہ میئر کہاں ہیں؟ ذرا قریب آجائیں یہ شہر تو آپ کی ذمے داری ہے، ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جیلانی اسٹیشن کو ازسر نو ڈیزائن کریں اور بحال کریں۔ سماعت کے دوران عدالتی ریمارکس پر کمشنر کراچی نے کہا کہ ہمارے پاس کچھ نہیں جو بھی ہے ریلوے کے پاس ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک دوسرے پر الزام لگائیں گے تو کچھ نہیں ہوگا۔عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ ریلوے کی زمین پر بڑی بڑی عمارتیں بن گئی ہیں جاکر ایک ہفتے میں گرائیں، جس پر کمشنر نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع دے رکھے ہیں۔اس پر عدالت نے کمشنر کراچی سے کہا کہ آپ جاکر گرائیں اور کہیں کہ عدالت عظمیٰ کا حکم ہے۔ بعد ازاں عدالت نے ایکنک کی جانب سے سرکلر ریلوے سندھ حکومت کو دینے سے متعلق دستاویز کی کاپی طلب کرلی اور سیکرٹری ریلوے کو آدھے گھنٹے کی مہلت دی۔عدالت عظمیٰ نے الہ دین پارک کے قریب زیرتعمیر عمارت اور دیگر غیر قانونی تعمیرات کے کو بھی گرانے کا حکم دے دیا۔راشد منہاس روڈ پر الہ دین پارک کے قریب زیر تعمیر عمارت پر حکم امتناع سے متعلق درخواست پر عدالت نے استفسار کیا کہ راشد منہاس روڈ پر 2 ایکڑ زمین غیرملکی کو کیسے دی جاسکتی ہے؟ جس پر کمشنر کراچی نے بتایا کہ ہم نے عمارت کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سرکاری زمین کو لیز کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے، تاہم 2 ایکڑ زمین دینے کا تمام عمل غیرقانونی ہے آپ (درخواست گزار) کے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ زمین آپ کو دی گئی ہے۔واضح رہے کہ مذکورہ زمین 2010 ء میں ہورٹی کلچر کے لیے دی گئی تھی۔بعد ازاں عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے زیر تعمیر عمارت گرانے کا حکم دے دیا۔دریں اثناء عدالت میں غیرقانونی تعمیرات کا معاملہ آیا جس پر عدالت نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل آپ ہمارا حکم نامہ مزید پڑھیں۔چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا کہ کیا شہر میں دیگر غیرقانونی تعمیرات ختم ہوگئیں؟ بتائیں، پارکوں، کھیل کے میدانوں کی کیا صورتحال ہے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کو کہا کہ آپ آرٹیکل 140 اے پڑھیں، کیا یہ سندھ میں لاگو نہیں ہوتا؟ساتھ ہی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ سامنے آجائیں، ان کے سامنے آنے پر عدالت نے پوچھا کہ بتائیں، بلدیات کو فعال کیوں نہیں کر رہے، بلدیاتی نظام کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔اس پر چیف سیکرٹری نے کہا کہ سندھ حکومت نے بیشتر اختیارات میئر کراچی کو ہی دے رکھے ہیں، مئیر کراچی کا یہ کہنا غلط ہے کہ ان کے پاس اختیارات نہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے سارے سیکرٹری ان کا ہی تو کام کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی کے سیوریج کے نظام کو کون دیکھے گا؟ آپ ملین ڈالر لگاتے ہیں کیا آپ کا پیسہ بھی لوگوں پر لگا؟ سارا پیسہ تو آپ لوگوں کی جیبوں میں جاتا ہے۔انہوں نے چیف سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سامنے ماسٹر نہ بنیں، آپ پاکستان کے ایک ملازم ہے، اس طرح نہ کریں، ملک کا آئین آپ لوگوں پر بھی عاید ہوتا ہے، قانون پر عمل کرنا آپ لوگوں پر بھی عاید ہوتا ہے۔بعد ازاں چیف جسٹس نے کہا کہ میئر کراچی کی کہانی بھی نہیں سنیں گے، میئر کراچی گیت سناتے ہیں مگر نہیں سنیں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگ سوٹ پہن کر دفاتر میں بیٹھ جاتے ہیں، ساتھ ہی چیف سیکرٹری سے مکالمہ کیا کہ یہ بتائیں آخری بار کون سی سڑک کا دورہ کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ، لوگوں سے مذاق کر رہے ہیں، آپ کسی کے لاڈلے ہوں گے مگر ہمارے نہیں۔عدالت عظمیٰ کی کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران شہر کی اصل حالت میں بحالی اور تجاوزات کے خاتمے کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ بتائیں شہر کو خوبصورت کیوں نہیں بتاتے آپ لوگ؟ ساتھ ہی ایڈووکیٹ جنرل کو آئین کا آرٹیکل 140 پڑھنے کا حکم دیا، جس کے بعد یہ پوچھا کہ جو کچھ آپ لوگ کررہے ہیں یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں؟ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تو آرٹیکل 6 کا کیس بنتا ہے آپ لوگ آئین توڑ رہے ہیں۔اسی کیس کی سماعت کے دوران ہل پارک کے اطراف تجاوزات کے خاتمے کا معاملہ بھی زیربحث آیا۔جس پر عدالت نے کڈنی ہل پارک کو مکمل طور پر بحال کرنے کا حکم دے دیا، ساتھ ہی عدالت نے باغ ابن قاسم سے 2ہفتے میں قبضہ ختم کرانے اور کمرشل بلڈنگ کا ملبہ ہٹانے کا حکم بھی دیا۔طویل سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلیٰ سے کہیں زیبرا کراسنگ، فٹ پاتھوں کی صفائی، بالائی گزرگاہیں (اوور ہیڈ برجز) بنائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی زیبرا کراسنگ پر لینڈ کروزر کھڑی کردے تو آپ ہٹا نہیں سکتے، پارکنگ کی جگہوں پر تو دکانیں بنی ہوئی ہیں اور ایس بی سی اے ساتھ ملی ہوئی ہے، دکانیں ایسے بن رہی ہیں ان کی بھرمار ہے جبکہ اس میں درآمدی چیزیں فروخت ہورہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پوری قوم کو دکاندار بنادیا ہے اب تو جوتے بھی نہیں بن رہے بلکہ جوتے تک چین سے آرہے ہیں، یہاں برتن تک نہیں بن رہے، سوئی لینے جائیں تو وہ بھی چائنا کی ہے، یہ ملک کس طرف جارہا ہے؟ ہم کیا کررہے ہیں؟انہوں نے کہا کہ کون کام کرے گا؟ کوئی مریخ سے آئے گا کیا؟ مٹی، دھواں گرد وغبار، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں یہ حال ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سائٹ ایریا تو جاکر دیکھیں، کیا حال ہے، آپ چاہتے ہیں صنعتیں کام کریں تو انہیں سہولت بھی دیں۔سماعت کے دوران جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ناظم آباد میں ہرگلی، محلے میں پیسے لے کر پورشن بن رہے ہیں، ساتھ ہی ڈی جی ایس بی سی اے سے مکالمہ کیا کہ کیا میرے ساتھ ابھی جا کر دیکھیں گے۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ سرکاری نمبر پلیٹ کی گاڑیاں کھڑی کرکے غیر قانونی تعمیرات کی جا رہی ہیں، ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ مکمل طور پر کراچی شہر کے لیے تباہی ہے۔دوران سماعت بوٹ بیسن کے اطراف پارک کی زمین پر عمارتیں بنانے کا معاملہ زیر غور آیا تو ایک خاتون شہری نے کہا اس جگہ پر کئی عمارتیں بنائی گئی ہیں، میں آپ کو ماسٹر پلان کے تحت نقشے بھی فراہم کرسکتی ہوں۔اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کے ڈی اے کے پاس کوئی الاٹمنٹ ہے، بینظیر بھٹو پارک کا؟ جس پر وکیل کے ڈی اے نے بتایا کہ بورڈ آف ریونیو نے یہ زمین الاٹ کی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کے ڈی اے کی زمین کی الاٹمنٹ پر بورڈ آف ریونیو کیسے الاٹمنٹ کر سکتا ہے۔اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے بینظیر بھٹو پارک کی جگہ پر عمارت بنانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور عمارت کے مالک اخلاق میمن کو نوٹس جاری کر دیا۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ بتایا جائے کہ پارک کی جگہ پر عمارت کی تعمیر کیسے ہوئی۔ساتھ ہی عدالت میں سندھی مسلم سوسائٹی میں غیر قانونی تعمیرات کا معاملہ بھی زیر غور آیا، جہاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سندھی مسلم سوسائٹی میں چائنا کٹنگ کر دی گئی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پوری شارع کشمیر پر ہی چائنا کٹنگ کردیں، جس پر بورڈ آف ریونیو نے کہا کہ یہ زمین سندھی مسلم سوسائٹی نے دیگر لوگوں کو الاٹ کی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی شارع فیصل الاٹ کردے تو کیا کریں گے، یہاں سب کچھ الاٹمنٹ کرنے کے لیے لیٹر جاری ہوجاتا ہے۔چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھی مسلم سوسائٹی میں نالے کی زمین پر کیسے عمارت بن گئی۔اس پر عدالت عظمیٰ نے شاہراہ قائدین نالے پر پیٹرول پمپ اور دیگر تجاوزات فوری ختم کرنے حکم دے دیا۔عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مکالمہ کیا کہ آپ کا یہ محکمہ بہت کرپٹ ہے، جس پر انہیں ایڈووکیٹ جنرل نے کہا میں تسلیم کرتا ہوں مگر کچھ ایماندار افسران بھی ہیں۔علاوہ ازیں عدالت نے ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو فوری طور پر ہٹانے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چیف سیکرٹری، ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول کو آج ہی ہٹائیں، یہ تاثر عام ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پیسے لے کر تعمیرات کراتی ہے، وزیراعلی سندھ خود ذاتی طور پر اس سنگین معاملے کو دیکھیں۔ساتھ ہی عدالت نے چیف سیکرٹری کو ایس بی سی اے کی ازسرنو ترتیب کا حکم دیا اور کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ تمام کرپٹ اور نااہل افسران کو فارغ کریں۔عدالت نے کہا کہ جب تک نیا ڈی جی نہ لگے چیف سیکرٹری خود معاملات کنٹرول کریں۔علاوہ ازیں چیف جسٹس نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گرین بس لائن منصوبہ کراچی کی حالت خراب کر دے گا اس سے شہر میں ٹریفک مزید جام ہوگا، ایم اے جناح روڈ پر گرین لائن کیسے چلائیں گے، آپ لوگ عوام کوکیا کیا خواب دیکھا رہے ہیں۔مذکورہ معاملات کی سماعت سے قبل عدالت عظمیٰ کے باہر بحریہ ٹاؤن، سندھ گورنمنٹ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کے الاٹیز نے احتجاج کیا۔متاثرین نے کہا کہ سندھ گورنمنٹ کوآپریٹو سوسائٹی 1970 میں بنی، 15 ہزار سے زائد الاٹیز ہیں اس کے لیکن اب تک پلاٹ کا قبضہ نہیں ملا، ہم نے تمام واجبات ادا کردیے ہیں، تاہم ہمیں بتایا گیا ہے کہ آدم جوکھیو سمیت تین افراد نے پلاٹوں پر قبضہ کیا ہوا ہے، لہٰذا ہماری چیف جسٹس سے اپیل ہے کہ پلاٹ پر سے قبضہ واگزار کرایا جائے۔دیگر متاثرین نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن نے ہمیں سہانے خواب دکھا کر پھسایا، بحریہ ٹاؤن کے مالک اگر ہمارے معاملات حل نہیں کریں گے تو ہمارا احتجاج وسیع ہوگا۔متاثرین نے کہا کہ 35 فیصد اضافی کٹوتی غیر قانونی غیر آئینی ہے جبکہ عدالت عظمیٰ کے حکم کے تحت ہمیں ریفنڈ بھی نہیں کیے جارہے۔