ایک ہفتے میں کراچی ریلوے کی زمین سے قبضے ہٹائیں،چیف جسٹس

447

کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کا کہنا ہے کہ کمشنر صاحب، سن لیں ایک ہفتے میں ریلوے کی زمین سے قبضے ہٹائیں۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سرکلر ریلوے بحالی کیس کی سماعت کی۔

عدالتی حکم پر کراچی پولیس کے چیف غلام نبی میمن، میئر کراچی وسیم اختر اور چیف سیکریرٹری سندھ ممتازعلی شاہ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پیش ہوئے۔

عدالت کے حکم پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا، عدالت نے سوال کیا کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق کس نے کیا عملدرآمد کیا؟ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اب تک کیا پیش رفت ہوئی؟ ہم نے آپ کی رپورٹ پڑھی ہے مگر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ سیکرٹری ریلوے کہاں ہیں؟ آپ نے کراچی سرکلر ریلوے بحال نہیں کیا، آپ نے کہا تھا خود بحال کرینگے، ہمیں کہانیاں مت سنائیں، بابو کی طرح بات مت کریں۔

سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سندھ حکومت نے ذمہ داری لی تھی، جس پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کام نہیں کر سکتے تو گھر جائیں، آپ منشی نہیں سیکرٹری ریلوے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب بسیں نہیں ہوتی تھیں تو سرکلر ریلوے ہی تھی، اگر سندھ حکومت نے ذمہ داری لی تو پھر وزیراعلی سندھ کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں، اگر وزیر ریلوے نے کچھ نہیں کیا تو آپ نے کیا کیا؟ الٹا اسے سی پیک میں ڈال دیا۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کراچی سرکلر ریلوے سی پیک کا حصہ ہے، سی پیک کی وجہ سے معاملات حکومتوں کے مابین ہیں، ماضی کا سرکلر ریلوے بحال کرنا ممکن نہیں، 24 گیٹ تھے، بیشتر پر قبضے ہو چکے ہیں۔

چیف جسٹس گلزارا حمد نے کہا مئیر صاحب، کراچی کے اصل سربراہ تو آپ ہیں، بتائیں آپ نے کیا کیا ؟ کمشنر صاحب، سن لیں ایک ہفتے میں ریلوے کی زمین سے قبضے ہٹائیں، ریلوے کی ہاؤسنگ سوسائٹیز ہوں یا پٹرول پمپ، جو راستے میں آتا ہے سب گرائیں، ہمیں اصل حالت میں کراچی سرکلر ریلوے بحال چاہیے، عدالت کو مطمئن نہ کر سکے تو سب کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرینگے۔

بعدازاں عدالت نے سیکرٹری ریلوے سے تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ اگرعدالت کو مطمئن نہ کر سکے تو سب کو توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کریں گے۔