اسلام آباد (آن لائن) عدالت عظمیٰ میں پنجاب کی 56 کمپنیوں میں مبینہ کرپشن اور بے ضابطگیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران پنجاب حکومت نے مؤقف اپنایا کہ غیر ضروری کمپنیاں بند کردی جائیں گی، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ تمام 56 کمپنیوں کو بند کیوں نہیں کررہے، کچھ کمپنیوں کے سربراہان سے عدالتی حکم کے باجود تنخواہیں اور مراعات واپس نہیں کیں، حکومت اپنے کام خود کرے، پنجاب حکومت کو کافی وقت مل گیا ہے اب اس مسئلے کو حل کرے۔ عدالت عظمیٰ نے سندھ و بلوچستان ہائیکورٹس کو میڈیکل کمیشن کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیاجبکہ پختونخوا پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل کی نوکری بحالی درخواست مستردکردی۔ تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ میں پنجاب کی 56 کمپنیوں میں مبینہ کرپشن اور بے ضابطگیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ تمام 56 کمپنیوں کو بند کیوں نہیں کررہے، کیا پنجاب حکومت اپنے قوانین پر کمپنیوں کے ذریعے عمل کروائے گی ، کسی زمانے میں ایسٹ انڈیا کمپنی چلا کرتی تھی، آخر میں اس ایسٹ انڈیا کمپنی نے کیا کیا، آپ بھی ایسٹ انڈیا والی چیز شروع کررہے ہیں، پنجاب حکومت کو کافی وقت مل گیا ہے اب اس مسئلے کو حل کرے، عدالت عظمیٰ نے کچھ کمپنیوں کے سربراہان سے پیسے واپس لینے کا حکم دیا تھا،کچھ لوگوں نے عدالتی فیصلے کے باجود تنخواہیں اور مراعات واپس نہیں کیں، کمپنیوں کے ذریعے عوام کو ڈیلیوری نہیں ہوسکتی،جو صوبے کے کرنے کے کام ہیں حکومت خود کرے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے معاملے پر اسٹیئرنگ کمیٹی بنائی ہے ، 37کمپنیوں سے عوام کو فائدہ پہنچ رہا ہے،جن کمپنیوں کی ضرورت نہیں انہیں بند کردیا جائے گا،اس مقدمے میں کچھ آئینی سوالات ہیں جس پر عدالت کی معاونت کروں گا۔ پرا سیکیوٹر جنرل نیب نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ جن لوگوں نے پیسے واپس نہیں کیے ان کے خلاف ریفرنس دائر کردیے ہیں۔ عدالت نے پنجاب حکومت کو نیب کی رپورٹ کا جائزہ لیکر جواب داخل کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ماہ تک کے لئے ملتوی کر دی۔ علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ نے پاکستان میڈیکل کمیشن سے متعلق کیس میں سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹ کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے پہلے فیصلہ سنانے سے روک دیا ہے۔ مزید برآں عدالت نے خیبر پختونخوا پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل کی نوکری بحالی سے متعلق درخواست مسترد کرتے ہوئے صوبائی سروس ٹربیونل کا فیصلہ برقرار قرار دے دیا ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 95فیصد سرکاری ملازمین کیخلاف درج مقدمات میں وہ بری ہو جاتے ہیں،یہاں سب ملے ہوئے ہیں،پیسے لے لیے جاتے یا پھر سفارش مان لی جاتی ہے، قانون نے شواہد اور گواہان کو دیکھنا ہوتا ہے۔ مشتاق احمد کو 2014 ء میں خاتون کے ساتھ زیادتی پر نوکری سے نکال دیا گیا تھا، میڈیکل رپورٹ میں خاتون کے ساتھ زیادتی ثابت ہوئی تاہم بعد میں خاتون نے مشتاق احمد سے صلح کر لی۔