یہاں تک تو بات طے ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر کے لیے ہیکل سلیمانی کی تعمیر ضروری ہے اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے مسجد اقصیٰ کی شہادت ضروری ہے۔ اگر عالمی سازش کار 2020 میں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے آغاز کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کی شہادت کے ناپاک منصوبے بھی 2020 ہی میں ہیں۔ مسجد اقصیٰ دنیا کے تینوں بڑے مذاہب یہودی، مسلمان اور عیسائیوں کے نزدیک مقدس مقام ہے۔ مسجد اقصیٰ کی شہادت سے یہودیوں کے لیے تو مسئلہ پیدا نہیں ہوگا بلکہ یہ مسئلہ پیدا کردہ ہی ان کا ہے۔ اب مسلمان اور عیسائی بچتے ہیں۔ عیسائیوں کو بھی صہیونیوں نے لولی پاپ دیا ہوا ہے کہ دنیا پر شیطان کے غلبے کی تکمیل کا مطلب ہی سیدنا عیسیٰؑ کی دنیا میں دوبارہ آمد ہے۔ عیسائیوں کا ایک فرقہ ایونجیکل کے نام سے موجود ہے جس کا کہنا ہے کہ سیدنا عیسیٰؑ کی دنیا میں جلد آمد کے لیے ضروری ہے کہ شیطان کے دنیا پر مکمل غلبے کی نہ صرف حمایت کی جائے بلکہ اس کے لیے عملی کوشش بھی کی جائے۔ امریکی سابق صدر بش جس کے دور میں نائن الیون کا واقعہ ہوا، ایونجلیکل فرقے ہی سے تعلق رکھتا تھا۔ اس طرح سے عیسائیوں کی بھی ایک بڑی تعداد کو مسجد اقصیٰ کی شہادت پر ردعمل دینے سے روکا جاسکے گا۔ اب صرف مسلمان بچتے ہیں جن کا اس پر شدید ردعمل آسکتا ہے۔ اگر سازش کاروں نے اس کا کوئی مناسب بندوبست نہ کیا تو یہ منصوبہ بیک فائر بھی کرسکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ اسرائیل کو بیت المقدس سے دست بردار ہونا پڑے۔
ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا منصوبہ کوئی آج کا نہیں ہے۔ اس پر سیکڑوں برس سے کام ہورہا ہے۔ گزشتہ بیس برسوں سے اس پر ہر پہلو سے کام کیا گیا ہے اور گزشتہ دو برسوں سے تو ہیکل سلیمانی کی تعمیر پر عملی کام شروع کیا جاچکا ہے۔ قربانی کے جانور کی دستیابی کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا عملی آغاز۔ دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے سازش کاروں کو بھی اس پوری صورتحال کا اندازہ ہے۔ اس کی پیش بندی کا آغاز انہوں نے نائن الیون سے کیا اور سیکنڈوں میں پوری مسلم امہ کی تصویر کو ایک دہشت گرد قوم کی تصویر میں تبدیل کردیا۔ مسلم ریاستوں کی حکمراں گزشتہ سو برسوں سے ان ہی عالمی سازش کاروں کے ایجنٹ رہے ہیں مگر گزشتہ بیس برسوں میں انتہائی وفادار افراد کو مسلم ریاستوں کے حکمرانی کے منصب پر فائز کیا گیا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے صدی کے منصوبے کو باقاعدہ پیش کرنے کی تقریب تو دیکھیں، اس میں تین عرب ریاستوں کے سفراء موجود تھے۔ سعودی عرب سمیت دیگر عرب ریاستوں نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے خوش آئند قرار دیا۔ اس سے مسلم امہ کو قابو کرنے کی کوششوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مسلم حکمرانوں کو تو قابو کرلیا گیا ہے مگر مسلم امہ کو قابو کرنا ایک الگ معاملہ ہے۔ اس کے لیے پوری دنیا میںجہاں جہاں مسلمان موجود ہیں، انہیں علاقائی مسائل میں الجھا دیا گیا ہے۔ بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی مسلمان آبادی بستی ہے۔ وہاں پر پہلے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرکے ایک حصے کو آگ و خون میں دھکیلا گیا، اس کے بعد پورے بھارت میں مسلمانوں کو شہریت بل میں پھنسادیا گیا۔ راکھین اور سنکیانگ میں مسلمان حراستی مراکز میں قید ہیں۔ پاکستانی عوام کو مہنگائی کے مصنوعی سونامی میں ڈبودیا گیا ہے۔ پوری عرب دنیا حالت جنگ میں ہے اور شدید انتشار کا شکار ہے۔ ایران پہلے ہی متعدد محاذ پر مصروف کردیا گیا ہے۔ مصر میں سیسی نے عوام کو قابو کیا ہوا ہے۔ لے دے کر ملائیشیا اور ترکی بچتے ہیں جن سے ردعمل کی امید ہے۔ سو اس کے لیے بھی معاملات نظر میں ہیں۔
اس وقت پوری دنیا کا ماحولیاتی کنٹرول ان سازش کاروں کے ہاتھ میں ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے اس کی فل ڈریس ریہرسیل بھی مختلف علاقوں کی جاتی رہی ہے۔ 2005 میں امریکا میں آنے والے سمندری طوفان کترینا سے لے کر دنیا کے کئی علاقوںمیں سمندری طوفان، برفانی طوفان اور زلزلے لائے جاتے رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں ہونے والی حالیہ بارشوں ہی سے حالات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آسٹریلیا کے جنگلات میں لگائی جانے والی آگ ابھی تک قابو میں نہیں آئی ہے بلکہ اس کا پھیلاؤ جاری ہے۔ Bio war ٹیکنالوجی کا اندازہ کرونا وائرس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سے اب تک مرنے والوں کی تعداد تین سو کا ہندسہ عبور نہیں کرپائی ہے مگر صرف چین ہی میں 16 شہروں کا لاک ڈاؤن جاری ہے اور پوری دنیا میں دہشت کی ایک فضا بنادی گئی ہے۔
خاکم بدہن اگر مسجد اقصیٰ کی شہادت کے ناپاک منصوبے ہیں تو پھر رواں برس کے ساتھ ساتھ آئندہ برسوں میں بھی مشکل حالات اور بڑی تعداد میں انسانی آبادی میں کمی کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ نیو ورلڈ آرڈر کے بلیو پرنٹ میں انسانی آبادی میں کمی بھی شامل ہے۔ انسان ریاست کا غلام تو بن ہی چکا ہے مگر اسے اب غلامی کی شرائط میں مزید سختی و اضافے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ سب سے بڑھ کر مسلم امہ کے حقیقی رہنماؤں کو آنے والے وقت کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ وقت ہاتھوں سے پھسل چکا ہے۔ تب بھی اس امر پر تو غور کیا جاسکتا ہے کہ کم سے کم نقصان کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے۔ اس دنیا پر ایک شیطانی عالمگیر حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردرا رکھیے۔ ہشیار باش۔