پہنچی وہیں پہ خاک

968

ہمارے زمانے میں گانوں کا بہت ہی زیادہ روج ہوا کرتا تھا۔ گھر میں گانے، گھر سے باہر نکلو تو گلیوں میں گانے، سڑکوں پے گانے، بازاروں میں گانے کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں گانوں کی گونج سنائی نہ دیتی ہو یہاں تک کہ کوئی سی بھی نماز ہو، حتیٰ کہ نمازِ تراویح میں بھی تلاوت کے ساتھ ساتھ لاؤڈ اسپیکر ریڈیو پر نشر ہونے والے گانوں کو کیچ کر لیا کرتا تھا جس کی وجہ سے تلاوت اور گانے، دونوں ایک ساتھ نمازیوں کے کانوں تک پہنچا کرتے تھے۔ کچھ گانے وہ بھی ہوتے تھے جو زباں زدِ عام تھے جن میں ایک گانا کچھ یوں بھی تھا ’’نانا کرتے پیار تمہی سے کر بیٹھے، کرنا تھا انکار مگر اقرار تمہی سے کر بیٹھے‘‘۔
میں این آر او نہیں دوںگا سے میں نے تو این آر او دے بھی دیا، تک کی کہانی بھی کچھ اسی طرح کی ہے کہ نانا کرتے پیار ان ہی باتوں سے کر لیا جس سے شدت کے ساتھ انکار تھا۔ خبر ہے کہ ’’وزیراعظم عمران نے 100 مختلف چھوٹے کاروبار کو لائسنس سے استثنا دینے اور دکانداروں پر غیر ضروری ٹیکس ختم کرنے کا حکم دے دیا‘‘۔ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔ دیکھیے کہ اقتدا کے 60 ماہ کی 25 فی صد مدت گزرنے کے بعد زود پشیمان کو خیال آیا کہ وہ چھوٹے کاروباری جو محدود پیمانے پر کاروبار کرتے ہیں ان پر اتنا بار نہ ڈالا جائے کہ وہ کاروبار ہی سے ہاتھ اٹھا بیٹھیں لہٰذا جو لائسنس کی قید ان پر لگائی گئی تھی اور جو ٹیکس ان پر عائد کیے گئے تھے، وہ ظالمانہ تھے جن کو واپس لینے کا اعلان کیا جارہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے 15 ماہ سے بھی زائد عرصے میں کاروبار کو جو شدید نقصان پہنچا اور جس کی وجہ سے عوام کو ساری اذیتیں برداشت کرنا پڑیں تو کیا ان کا بھی ازالہ کیا جائے گا یا جو کچھ خون عوام کا چوس لیا گیا ہے وہ قیامت تک واپس نہیں کیا جائے گا۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کا کیا بھروسا کہ پہلے پہل لگائی گئیں قیود جو اب لاچاری اور مجبوری کی حالت میں اٹھا لی گئی ہیں کیا وہ دوبارہ نافذ نہیں کی جائیں گی؟۔
پاکستان کے عوام 1971 میں قائم ہونے والی حکومت کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے جب پورے پاکستان کو قومیا لیا گیا تھا۔ راتوں رات سارے مل مالکان، اسکولوں کے معمار اور ہر قسم کے چھوٹے بڑے تاجروں سے ان کی زندگی بھر کی ساری پونجی چھین کر قومی تحویل میں لے لی گئی تھی۔ پھر اس کے بعد سے آج تک پاکستان انہیں دوبارہ نجی ملکیت میں دینے کی جنگ لڑ رہا ہے لیکن جب بھی پاکستان کسی قومیائی گئی مل، اسکول، کارخانوں اور اداروں کو نجی تحویل میں دینے کا ارادہ کرتا ہے، ملک میں ایک سونامی برپا ہو جاتا ہے۔ یہی نہیں، جب سرمایہ داروں کو اس بات کی دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنا کاروبار خود کریں تو وہ اپنا سرمایہ لگاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ان کا ڈر اس لیے بجا ہے کہ پاکستان کی کسی بھی حکومت کا کچھ علم نہیں کہ کب وہ گرگٹ کی طرح اپنا رنگ بدل لے اور جمے جمائے کاروبار پر سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ جائے اور سرمایہ داروں کی لگائی ہوئی ساری جمع پونچی ایک ہی رات میں ہوا میں تحلیل ہو جائے۔
قومیائے جانے کا دوسرا منفی اثر یہ پڑا کہ سرمایہ داروں نے اپنے سرمائے کو اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ سمجھتے ہوئے آمدنی کے سارے روپے پیسوں کو بیرونِ ملک منتقل کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کی جڑیں کھوکھلی ہو کر رہ گئیں اور آج یہ حال ہے کہ اگر دنیا کے کچھ ہمدرد ممالک پاکستان میں بطور امانت اپنے ڈالرز نہ رکھوائیں تو پاکستان کے پاس دنیا کو دکھانے کے لیے شاید اتنا سرمایہ بھی موجود ہی نہ ہو کہ وہ اپنے آپ کو دنیا کے سامنے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر دکھا سکے۔
موجودہ حکومت جس دعوے کے ساتھ آئی تھی اس میں سب سے بڑا دعویٰ ہی یہی تھا کہ وہ خود کفالت کی جانب جائے گی لیکن پچھلوں سے بھی زیادہ کشکول تھامے نظر آئی۔ لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کی باتیں ہوئیں لیکن لٹیروں کو رعایتیں دینے پر معاملات ختم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے کا دعویٰ تھا لیکن سو سے زیادہ کاروباریوں پر سے لائسنس کی قیود ہٹائی جارہی ہیں۔ ٹیکس میں اضافے کی باتیں تھیں لیکن بے شمار ٹیکس معاف کیے جارہے ہیں اور احتساب کی باتیں کرتے کرتے ہوا یہ کہ نیب کے قوانین میں بے شمار تبدیلیاں ایسی لائی گئیں کہ نیب کے ہاتھ پاؤں ہی باندھ کر رکھ دیے گئے۔ حکومت کا دعوؤں میں سب سے بڑا دعویٰ یہی تھا کہ ’’این آر او‘‘ نہیں دیا جائے گا یعنی بالفاظِ دیگر کسی کو بھی کسی قسم کی کوئی غیر قانونی رعایت حاصل نہیں ہو سکے گی لیکن، نواز شریف باہر ہیں، شہباز شریف ان کی دیکھ بھال کے لیے بھیج دیے گئے ہیں، زرداری صاحب سردیوں کی راتوں کے مزے اڑا رہے ہیں، فریال تالپور ان کی خدمت کے لیے مقرر کی گئی ہیں اور رانا ثنا اللہ حکومت کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنسے حکومت کی ہر فورم پر عزت افزائی میں مصروف ہیں لیکن لگتا ہے کہ حکومت کے جتنے بھی گھڑے ہیں وہ سب کے سب بالکل چکنے ہیں۔ تفصیل کے مطابق وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں انہیں بریفنگ دی گئی کہ موجودہ لائسنس نظام میں کرپشن، رشوت ستانی اورکاروباری افراد کو ہراساں کرنے کی شکایت عام ہے، چھوٹے درجے کے 150مختلف کاروباروں کے لیے میونسپل کارپوریشن اور دیگر اداروں سے لائسنس درکار ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم نے پیچیدہ لائسنس نظام پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کریانہ، کپڑا، کلچہ شاپ اور دیگر کے لیے لائسنس کی شرط مشکلات پیدا کرنے کے مترادف ہے، ایسے غیر ضروری لائسنس کی شرط کو فوری طور پر ختم کیا جائے،غریب کاروباری افراد کو بے جاتنگ نہ کیا جائے۔
وزیر اعظم کو جن مشیران کی جانب سے بھی یہ بریفنگ دی گئی کیا یہ سارے افراد پہلے نیپال گئے ہوئے تھے۔ رہی رشوت ستانی کی بات تو یہ تو ہوا اور پانی کی طرح اس قدر وافر مقدار میں موجود ہے کہ جس کے لیے کسی بھی قسم کے لائسنس ہونے یا نہ ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہوا کرتی۔ یہاں اہم نقطہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ ملک میں رشوت ستانی عام ہے، کیا اس کے خلاف بھی کسی فوری کارروائی کا اعلان کیا گیا۔ رشوت عوام تو نہیں لیا کرتے، مقتدر ادارے ہی کسی کو رشوت دینے پر مجبور کیا کرتے ہیں۔ اگر ان کی نہیں مانی جائے تو کاروبار تو کاروبار، کاروباری کے بیوی بچے بھی ان کی دست برد سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔ بات یہ نہیں کہ لائسنس کا اجرا بند کیا جائے یا نہیں، بات یہ ہے کہ کاروبار کے فرغ کے لیے کیا کیا اقدامات ایسے ہیں جن کی وجہ سے سرمایہ کاری کرنے والوں کو اعتماد حاصل ہو سکتا ہے۔ ان کے سرمائے کو تحفظ ہے یا نہیں، جو کاروبار وہ کررہے ہیں وہ بھتا خوروں اور راشیوں سے پریشان تو نہیں۔ وہ لٹیروں کے آگے بے بس تو نہیں۔ انہیں ڈاکوؤں سے جان و مال کا ڈر ہے یا نہیں۔ یہ ہیں وہ سارے پہلو جو، چھوٹے ہوں یا بڑے، سرمایہ کاروں کو تحفظ حاصل نہیں ہوگا اس وقت تک کوئی بھی اپنے سرمائے کو مکمل اعتماد کے ساتھ کسی کاروبار میں نہیں لگا سکتا۔
موجودہ حکومت کو یہ ماننا پڑے گا کہ ملک چلانے اور کرکٹ کی ٹیم بنانے میں بہت واضح فرق ہوتا ہے۔ یہ کرکٹ میں ہوتا ہے کہ میں فلاں کو نہیں کھلاؤںگا اور فلاں کو گلی میں اور فلاں کو لانگ آف یا آن پر پلیس کروںگا۔ سیاست کے میدان میں اٹل ہوجانا سیاست دان ہی کو نہیں، ملک کو بھی تباہ و برباد کر کے رکھ دیا کرتا ہے جس کی سب سے بڑی مثال اپنے ہر دعوے کے خلاف اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوجانا ہے۔ یعنی ویسی ہی بات جو ’’نانا کرتے پیار کر بیٹھنا‘‘ میں کہی گئی تھی۔ بہر حال ہم دعا گو ہیں کہ تاجروں کے لیے اعلان کردہ سہولتوں کا اثر عوام تک پہنچے تو بہت ہی اچھا ہے ورنہ سارے اقدامات نہ تو پاکستان کی معیشت کی مضبوطی اور حکومت کی آمدنی میں اضافے کا سبب بنیں گے اور نہ ہی عوام کے لیے خوش کن ثابت ہوںگے اور حکومت کے انکار کا اقرار میں بدل جانا خود اس کے لیے گلے کا ایک اور پھندہ بن کر رہ جائے گا اور پوری دنیا یہی کہتی نظر آئے گی کہ ’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘۔