ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا

540

ایک زمانے میں کلائی گھڑی کا بہت رواج ہوا کرتا تھا۔ ہر شخص اپنی استطاعت کے اعتبار کے مطابق اپنی کلائی پر گھڑی ضرور سجایا کرتا تھا۔ گھڑی کم قیمت ہوتی یا بیش قیمت، اس میں خرابی تو آہی جایا کرتی تھی۔میرے پاس ایک ایسی گھڑی تھی جس میں تاریخ اور دن دیکھنے کے علاوہ ’’اسٹاپ واچ‘‘ اور ایک چھوٹی سی گھڑی اور بھی ہوتی تھی جو کسی اور ملک کے وقت کے حساب سے بھی سیٹ کی جا سکتی تھی۔ قصہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میری گھڑی کی ’’اوقات‘‘ بگڑنے لگی تو میں نے اسے ایک ماہر گھڑی ساز کو اس کی ’’اوقات‘‘ میں لانے کے لیے کہا۔ اگلے دن جب میں نے گھڑی واپس لی تو اس نے اسٹاپ واچ کو بالکل ہی اسٹاپ کر دیا تھا۔ وجہ پوچھی تو کہا کہ اس گھڑی میں مشینری کو چلانے والی جو قوت ہے اس میں کمزوری کی وجہ سے زائد بوجھ کو کم کرنا ضروری تھا۔ مجھے بھی کون سا ایسا کام کرنا پڑتا تھا جس کے لیے اسٹاپ واچ ضروری ہوتی اس لیے میں نے گھڑی درست کرنے کی اجرت ادا کی اور گھڑی کلائی پر سجالی۔ بات گھڑی ساز کی اس لیے ٹھیک لگی کہ گھڑی کا ٹائم بالکل ٹھیک ہو گیا۔ ٹھیک دو ماہ بعد پھر گھڑی کی رفتار کم ہوئی تو اسی ’’ماہر‘‘ سے رجوع کیا، اس مرتبہ اس میں موجود زائد گھڑی کو نکال دیا گیا۔ خیر مطلب تو وقت دیکھنے سے تھا کون سا مجھ غریب کو کوئی غیر ملکی دورہ کرنا تھا۔ اس سے اگلی مرتبہ تاریخ اور دن بتانے والا سسٹم بھی ہٹادیا گیا اور یوں وہ گھڑی جس کو سارے لوگ گھڑی گھڑی دیکھا کرتے تھے خود میں نے بھی دیکھنا اور کلائی پر سجانا بند کر دی۔
جب پاکستان بنا تھا تو اس وقت کے جو رہنمایانِ قوم تھے انہوں نے ٹاٹ پر بیٹھ کر پاکستان کا نظام بنا ڈالا تھا۔ ان سب کے پیش نظر جو بات تھی وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں تھی کہ پاکستان کا ایک دستور بنا دیا جائے تاکہ جو محکمہ اور ادارہ بھی وجود میں آئے وہ ایک نظام (سسٹم) کے تحت چل سکے۔ اس وقت کے کسی ایک فرد نے بھی یہ نہیں کہا کہ یہ لٹا پٹا پاکستان ہمیں جس حال میں ملا ہے اس کو ٹھیک کرنے میں صدیاں لگ جائیں گی یا بنیادوں کی کھدائی سے لیکر ایک مکمل عمارت کی تعمیر ممکن ہی نہیں۔ سب راہبر و رہنما، قوم کے لیے آئین اور قانون بنانے میں اپنے تن من دھن کے ساتھ جت گئے اور آخرِکار 1956 کا آئین بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ ملک کو آئین و قانون کے پٹڑی پر چڑھایا ہی تھا کہ ٹھیک دو سال بعد 1958 میں اس کی دھجیاں اُڑادی گئیں۔ بجائے آئین میں کسی کمی پیشی کو دور کرکے اسے مزید بہتر کیا جاتا، فرمایا گیا کہ آئین اور قانون کیا ہوتا ہے، جو میں اپنے منہ سے کہہ رہا ہوں وہی آئین و قانون ہے۔
وہ دن اور آج کا دن، ہر آنے والا حکمران یہی کہتا نظر آتا ہے کہ ساری خرابی سسٹم (نظام) میں ہے۔ عدالتوں میں انصاف اس لیے نہیں ملتا کہ سسٹم (نظام) خراب ہے۔ ملک میں قانون سازی اس لیے نہیں ہو سکتی کہ سسٹم (نظام) خراب ہے۔ انتخابات اس لیے شفاف نہیں ہو سکتے کہ سسٹم (نظام) خراب ہے۔ ٹیکس دہندگان اس لیے نہیں بڑھائے جا سکتے کہ سسٹم (نظام) خراب ہے۔ ٹیکسوں میں اضافہ اس لیے ممکن نہیں کہ سسٹم (نظام) خراب ہے اور کسی بھی ادارے یا محکمے کی اصلاح اس لیے ممکن نہیں کہ سسٹم (نظام) خراب ہے۔ الغرض جو بھی خرابی ہے وہ سسٹم یعنی نظام کی ہے اس لیے جب تک اسے نہیں بدلا جائے گا اس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں کہ عوام کو اطمینان و سکون نصیب ہو سکے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سسٹم خراب ہے اور اس کو بدلنا بھی لازمی ہے تو آخر اس کو بدلے گا کون؟۔ یہ کام عوام تو نہیں کر سکتے کہ وہ سسٹم یعنی پورے نظام ہی کو بدل کر رکھ دیں۔ عوام نے تو تاریخ کا وہ کارنامہ انجام دیا تھا جس کا کوئی تصور کیا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ عوام نے فرنگیوں، ہندوؤں اور سکھوں سے ان کا ایک بہت وسیع خطہ زمین چھین کر اپنے رہبروں کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کے بعد بھی عوام ہر آمر کے جبڑوں سے عنانِ اقتدار چھین چھین کر سیاستدانوں کے حوالے کرتے رہے۔ عوام ہی تھے جنہوں نے تبدیلی کے نام پر دھوکا کھا کر ملک کی دولت لوٹ لوٹ کر کھانے والوں سے اقتدار کی باریاں چھین کر ایک ایسے حکمران کے حوالے کیں جس کے متعلق ان کا گمان تھا کہ وہ ان کا نجات دہندہ ثابت ہوگا۔ عوام کے اس سے زیادہ بس ہوا بھی نہیں کرتا۔ یہ سب کچھ لاکھوں جانوں، مالوں، عزتوں اور آبروؤں کے بعد حاصل ہوتا رہا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے فوجی یا سول حکمران اس گھڑی ساز کی طرح ہی آتے رہے ہیں جس نے گھڑی کو اپنی ’’اوقات‘‘ میں لانے کے بہانے اس کے ایک ایک عضو کو کاٹ پیٹ کر اسے دو کوڑی کا بھی نہیں رہنے دیا تھا۔ پاکستان میں جو بھی حکمران آتا ہے وہ ملک کے سارے نظام کو ٹھیک کر دینے کے دعوے کرتا ہوا آتا ہے لیکن اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہی وہ سب سے زیادہ کیڑے اسی نظام کے نکالنے میں لگ جاتا ہے جس کو ٹھیک کرنے کا دعویٰ کرکے وہ آیا ہوتا ہے۔ پھر ہوتا یہ ہے ’’ماہر‘‘ گھڑی ساز کی طرح اس کی ایسی تیسی کرنے کے بعد یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ پاکستان کو ٹھیک کرنے کے لیے پورے نظام ہی کو بدلنا ہوگا۔
چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے ملک کے ٹیکس نظام کے ناکامی کی طرف جانے کا اعتراف کرلیا ہے۔ اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے شبر زیدی کا کہنا تھا کہ ملک کا ٹیکس نظام درہم برہم ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ شبر زیدی غلط کہہ رہے ہوںگے لیکن کیا اس سے پہلی جو بھی حکومتیں تھیں ان کے پاس کوئی اور ٹیکسیشن نظام تھا؟۔ وہ سب بھی تو اسی نظام کے تحت کام کر رہی تھیں اور موجودہ حکومت سے کہیں بہتر انداز میں حکومت چلا رہی تھیں۔ شبر زیدی مزید فرماتے ہیں کہ ٹیکسیشن کا نظام ناکامی کی طرف جا رہا ہے، ٹیکسیشن کو عوام کی مدد سے صحیح کرنا ہے اور سسٹم میں بنیادی تبدیلیاں کرنی ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نظام کو مزید بہتر کرنے کے لیے جو تبدیلیاں بھی لانا ضروری ہیں تو ان کو ایسا کرنے سے روکا کس نے ہے۔ حکومت کا کام ’’کرنا ہے‘‘ نہیں ہوا کرتا، کر گزرنا ہوتا ہے۔ 16 ماہ بعد ہی سہی، اگر نظام میں کیڑا نظر آہی گیا ہے تو اس کو ماردینے میں دیر کس بات کی۔ بات یہاں پر ہی ختم ہوجاتی تب بھی شاید قابل برداشت ہوتی لیکن وہ دوسرے ہی سانس میں یہ فرماتے بھی نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیکس کا زیادہ بوجھ مینو فیکچرنگ سیکٹر اٹھا رہا ہے، لوگ ٹیکس بوجھ کی وجہ سے مینو فیکچرنگ سے بھاگ رہے ہیں، ریفارم پالیسی کے مطابق ٹیکس کا بوجھ تمام سیکٹرز میں برابر بانٹا جائے گا۔ یہ سارا بیانیہ آنکھوں پر پٹیاں باندھنے کے مترادف ہے۔ کہا جاریا ہے کہ مصنوعات بنانے والوں پر ٹیکس کا زیادہ بوجھ ہے، یہ ایک ایسا مذاق ہے جو عوام کے دل چھیدنے کے مترادف ہے۔ آپ مصنوعات بنانے والوں پر جو بھی ٹیکس عائد کرتے ہیں وہ آخرِ کار عوام اشیا کو مہنگا خرید کر ہی تو ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ مصنوعات بنانے والے یہ ٹیکس اپنی جیب سے کب ادا کرتے ہیں۔ کیا سیل ٹیکس اشیا فروخت کرنے والے ادا کرتے ہیں۔ کیا یہ مذاق نہیں کہ خریدار، اشیا بیچنے والا قرار دیا جائے؟۔ یہ سارا اضافی ٹیکس تو اشیا بیچنے والا خریدار کی جیب سے وصول کیا کرتا ہے۔
عجیب تر مذاق یہ ہے کہ حکومت آئے تو غریب عوام کے ووٹوں سے لیکن وہ اقتدار میں آنے کے بعد سرمایہ داروں کی طرفدار بن جائے۔ آئے تو اس لیے کہ عوام کے لیے سہولتوں میں اضافہ کرے گی لیکن وہ تاجروں کی سہولت کار بن جائے۔ فرماتے ہیں کہ ذاتی طور پر پاکستان میں کوئی بھی ٹیکس نہیں دینا چاہتا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ آپ کے ٹیکسیشن نظام میں تو وہ روح جو ابھی شکمِ مادر میں انسانی رنگ روپ میں بھی نہیں آئی ہوتی، وہ بھی نجانے کتنے علاج معالجوں، ڈاکٹروں کی فیسوں اور مائیں بننے والی دواؤں کی صورت میں ٹیکس ادا کر رہی ہوتی ہے۔ جو قوم ماچس کی ڈبیا میں رکھی ایک تیلی بھی بغیر ٹیکس دیے نہیں جلا سکتی اس کے متعلق یہ کہنا کہ پاکستان میں کوئی ذاتی طور پر ٹیکس دینا ہی نہیں چاہتا، کتنا بڑا بہتان ہے۔ لگتا ہے کہ حکومت کے مشیر خاص اور چیئر مین ایف بی آر کے نزدیک اصل ٹیکس یہ ہے کہ آخری سانس اور لہو کی آخری بوند بھی جب تک عوام کی ایک ایک رگ سے کشید نہ کر لی جائے، ٹیکس ادائیگی کا مفہوم پورا ہی نہیں ہو سکتا۔
بات یہ ہے کہ حکمران جو بھی آتا ہے عوام کی فلاح و بہبود کے دعوے لے کر آتا ہے لیکن اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد اسے عوام کیڑے مکوڑوں سے بھی زیادہ گھناؤنے لگنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے وہ یہی چاہتا ہے کہ اگر یہ نحوست ختم ہو جائے تو پاکستان کا گند چھٹ جائے لہٰذا اس کا سارا دورِ اقتدار اپنے پچھلوں کو گالیاں دیکر، نظام میں سے کیڑے نکال کر اور عوام کو آزمائش کی چکی میں مزید پیس پاس کر اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوتا سو موجودہ حکومت بھی اسی روش پر چل نکلی ہے اور اس نے یہ طے کر لیا ہے وہ اپنے ناچ نے کو ناجاننے کا اعتراف کرنے کے بجائے آنگن ہی کو ٹیڑھا ثابت کرنے میں لگی رہے تاکہ اس کی ناکامی کا سارا الزام نظام کے ناقص ہونے کے سر اڑھایا جا سکے۔