قوم اور قومی سلامتی؟

371

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ’’پاکستان خطے میں امن و سلامتی کا اہم شراکت دار ہے۔ پاکستان قومی سلامتی اور دفاع پرسمجھوتا کیے بغیر اپنا ذمے دارانہ مثبت کردار ادا کرتا رہے گا‘‘۔ یہ بات انہوں نے کور کمانڈرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ایک تو خطے اور خود ریاست کی صورت حال کی وجہ سے کورکمانڈرز کانفرنس کا انعقاد بہت جلد جلد عمل میں آرہا ہے جو اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ ملک اور خطے کے حالات غیر معمولی ہیں۔ یہی غیر معمولی حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ پاکستان نہ صرف تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی پالیسیوں پر مکمل نظر رکھے بلکہ پل پل بدلتی صورت حال کے مطابق اپنے اہداف بدلتا اور حاصل کرتا رہے۔
فی زمانہ دنیا کی ساری وسعت باغیچہ اطفال کی صورت سمٹ کر رہ گئی ہے اور کسی بھی ملک میں کوئی معمولی سا تغیر بھی پوری دنیا پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ اس وقت جو حالات پاکستان کی سرحدوں کے چاروں جانب ہیں اس سے عرب ممالک، ایران، بھارت، چین اور افغانستان تو متاثر ہوں گے ہی لیکن سب سے زیادہ منفی اثرات پاکستان پر پڑیں گے
الیکٹرونک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، ایک لفظ بہت شدت سے استعمال کرتے نظر آتے ہیں اور وہ لفظ ہے ’’قومی سلامتی‘‘۔ کور کمانڈرز کی میٹنگ ہو یا ٹی وی ٹاک شو، وہاں بھی قومی سلامتی کی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ مساجد یا دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں ہوں، دعاؤں میں قومی سلامتی کا ذکر خیر ہو رہا ہوتا ہے لیکن میں آج تک یہی نہیں سمجھ پایا کہ پاکستان میں رہنے والے سارے ایک ہی قوم ہیں یا ایک ایسا ہجوم جو دنیا بھر کی اکائیوں کا مجموعہ ہے۔
ایک بد قسمتی یہ ہوئی کہ اپنی ملت کے تصور سے بیگانہ ہوجانے کے بعد کم از کم انہیں اس بات پر ہی اتفاق کر لینا چاہیے تھا کہ وہ جس خطہ زمین میں رہتے ہیں وہ خطہ زمین ایک ملک کہلاتا ہے جس کا نام پاکستان ہے لیکن چوتھائی صدی کے اندر ہی اندر پہلے ہم دو علاقائی یا لسانی تقسیم کا شکار ہوئے اور اس کے بعد اب معلوم نہیں کتنے دھڑوں میں بٹ چکے ہیں۔ جب بھی پرنٹ یا الیکٹرونک میڈیا پر یہ سنائی دیتا ہے کہ کوئی کورکمانڈرز کانفرنس ہوئی یا حکومتی اعلیٰ سطحی کسی اجلاس میں قومی سلامتی پر غور و خوض کیا گیا تو میں قوم اور قومی سلامتی، دونوں کے متعلق سوچ میں پڑ جاتا ہوں۔ پہلی سوچ تو یہی ہوتی ہے کہ کیا ہم ’’قوم‘‘ بھی ہیں یا نہیں، جو گروہ بے شمار اکائیوں میں بٹا ہوا ہو، ہر گروہ اتنا شدید ہو کہ ایک دوسرے کی زندگی تک چھین لینے سے گریز نہ کرتا ہو تو کیا ایسی کیفیت کے شکار کسی ہجوم کو قوم کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان بناتے وقت سب ایک ہی تھے یعنی مسلمان۔ کسی میں ذرہ بربر بھی کوئی امتیاز موجود نہیں تھا۔ پاکستان بننے کے بعد مسالک نے سر اٹھایا لیکن اس بنیاد پر چند ہی گروہ تشکیل پا سکے۔ پھر مشرق اور مغرب کے امتیاز نے پاکستان کو آدھا کردیا۔ مرض کی درست تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے مرض بڑھتا گیا۔ لسانی اور علاقائی عصبیت شدت اختیار کرتی گئی اور فی زمانہ اس میں سیاسی تقسیم اتنی شدت کے ساتھ عود کر آئی کہ وہ، مذہب، مسلک، علاقائی، لسانی اور صوبہ جاتی ساری تقسیموں پر اس بری طرح غالب آتی چلی گئی کہ ہر گروہ کی نظر میں ہر دوسرے گروہ والا ملک کا غدار بنتا چلا گیا یہاں تک کہ اب یہ حال ہے وہ ادارہ جس کے متعلق کوئی یہ بات سوچ بھی نہیں سکتا تھا ان میں بھی غدارانِ وطن موجود ہو سکتے ہیں ان کے کرنل جنرل ہی کو نہیں، اس کے سپہ سالاروں کو بھی ’’سنگین‘‘ غدار قرار دیکر پھانسیوں کا حکم سنایا جانے لگا۔
ان حالات کی روشنی میں جب بھی کورکمانڈروں یا حکومتی سطح پر کسی بھی بڑے اجلاس کے متعلق یہ سنتا ہوں کہ وہاں ’’قومی سلامتی‘‘ پر غور کیا گیا تو اس سوچ بچار میں پڑ جاتا ہوں کہ کس قوم کی کس سلامتی پر کس نے غور کیا۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت 228 ویں کورکمانڈرز کانفرنس جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقد ہوئی۔ فورم نے جیو اسٹرٹیجک، علاقائی و قومی سلامتی کی صورتحال، داخلی سلامتی کی صورتحال اور سرحدی و کنٹرول لائن کی صورتحال اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اپنے چاروں جانب سے بڑی کشمکش کا شکار ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی معاشی صورت حال ہو یا سرحدوں پر بڑھتی ہوئی کشیدگی، پاکستان کے لیے اندرونی اور بیرونی طور پر بہت بڑا سوال بنی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کورکمانڈرز اجلاس معمول سے زیادہ ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ہماری فوجی قیادت تو مسلسل اس بات پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور و خوض میں لگی ہوئی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہماری سیاسی قیادت کسی بھی معاملے میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہی اور نہ ہی اس میں وہ اہلیت نظر آ رہی ہے جو ملک کو بحرانوں سے باہر نکال سکے۔
قومی سلامتی کا سارا انحصار سرحدوں کی سلامتی و حفاظت سے ہے جس کے لیے پاک فوج نہ صرف چوکنا و بیدار نظر آ رہی ہے بلکہ تقریباً روز کی بنیاد پر حالات کا جائزہ لیتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے لیکن بہت سارے داخلی معاملات ایسے ہیں جو سراسر سیاسی قیادتوں کی ذمے داریوں میں آتے ہیں۔
قومی سلامتی کا انحصار صرف اس بات پر نہیں ہوا کرتا کہ سرحدیں محفوظ ہوں اور کسی بھی قسم کی غیر ملکی جارحیت کا بھر پور جواب دینے کے لیے مضبوط اور بہادر فوج موجود ہو۔ ملک اگر اندرونی لحاظ سے انتشار کا شکار ہو، عوام بد حال ہوں، معاشی پریشانیوں نے لوگوں کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہو، مہنگائی ہو، بے روزگاری ہو، سیاسی اختلافات عروج پر ہوں، اسٹریٹ کرائم کا شمار مشکل ہو جائے، چوری چکاری، لوٹ مار، ذرا ذرا سی باتوں پر ایک دوسرے کو قتل کیا جانا عام ہوجائے، ملک کا امن و امان بگڑ جائے، لوگوں کو ان کی بنیادی حقوق حاصل نہ ہوں، جہالت فروغ پا رہی ہو، علاج معالجے کی سہولتیں میسر نہ ہوں اور عوام انصاف سے محروم ہوکر خود ہی اپنے اوپر ظلم و زیادتی کرنے والوں کے خلاف سڑکوں پر نکل کھڑے ہوں تو ریاست کا امن و سکون درہم برہم ہو کر رہ جایا کرتا ہے اور جب ریاست فسطائیت کا شکار ہو تو پھر ’’قومی سلامتی‘‘ بے معنیٰ بن جایا کرتی ہے خواہ اس کے لیے جتنا بھی غور خوض کر لیا جائے یا جتنے بھی اجلاس طلب کر لیے جائیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے سرحدی حفاظت اور اندرونی خلفشار کے چند امور کے علاوہ اور جتنے بھی امور کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب بھی کیا افواج پاکستان ہی کی ذمے داری ہے؟۔
پاکستان بننے سے لیکر اب تک جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئیں تو یہی دیکھا گیا کہ جب جب بھی سول قیادتیں ملک کا نظم و نسق کماحقہ چلانے میں ناکام ہوتی نظر آئیں تو فوجی قیادت نے ریاست کو بچایا جس کے نتیجے میں کئی مارشل لاؤں کا سامنا قوم کو کرنا پڑا، جب ہر مرتبہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے تو پھر ایک ایسی حکومت جو کسی بھی لحاظ سے پاکستان کو بحرانوں سے نکالتی نظر نہیں آ رہی بلکہ ہر آنے والا دن قوم پر گراں بار سے گراں بار تر ہوتا چلا جارہے تو پھر کیا یہ ممکن نہیں کہ پاکستان کے تمام سنجیدہ، پاکستان دوست اور ریاست کے ہمدردوں کو جمع کرکے کوئی اچھی حکومت قائم کر لی جائے۔ اگر ایسا ممکن ہے تو پھر قومی سلامتی پر غور و خوض سمجھ میں آتا ہے ورنہ قومی سلامتی کے تار وپود کو بکھرنے سے اللہ ہی روک سکے تو روک سکے، بندوں کے اختیار سے تو بات باہر نکلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔