راولپنڈی(آن لائن) جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے حالیہ کردار پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو بڑی اپوزیشن جماعتیں حکومت کا حصہ لگ رہی ہیں ،توقع تھی کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) ملک و قوم کو بحرانوں سے نکالیں گی مگر دونوں نے قوم کو مایوس کیا ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اپوزیشن کی جماعتیں حکومت کا حصہ لگ رہی ہیں، ان کا آپسی انتشار حکومت کے استحکام کا سبب بن رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی توسیع کے معاملے پر حزب اختلاف کا حکومت کا ساتھ دینے سے نقصان ہوا ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بین الاقوامی دبائو پر دینی مدارس کے لیے جال بچھائے جارہے ہیں اور تاثر دیا جارہا ہے کہ دہشتگردی اور انتہا پسندی کا سبب مدارس ہیں۔ فضل الرحمن نے حکومت کے خلاف نئی تحریک چلانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جعلی حکومت گرانے کے لیے کوئی طریقہ کامیاب نہ ہوا تو عوام کی قوت سے حکومت کو اکھاڑ پھینکیں گے۔ وقت ثابت کرے گا کہ طالبانائزیشن کے پیچھے مدارس تھے یا اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے گزشتہ روز جامعہ اسلامیہ راولپنڈی میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔انہوں نے واضح کیا کہ مدارس کو کسی حوالے کریں گے نہ کسی کو نصاب میں تبدیلی کی اجازت دیں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ آج اجلاس میں فیصلہ کریں گے کہ پنجاب میں ازسر نو احتجاجی تحریک کب شروع کریں ،دینی مدارس کے لیے جال بچھائے جا رہے ہیںبین الاقوامی دباؤ بھی ہے ، مدارس کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے،مدرسہ کے انتظام پر معاہدے ہو چکے سرکار ان پر عمل کریں،مدارس کو محکمہ تعلیم کے ماتحت نہیں کرنے دیں گے حکومت کے ناپاک عزائم آزادی مارچ سے ناکام ہوئے ہیں ،ملک کے کسی طبقے کو مایوس نہیں ہونے دیں گے ، آزادی مارچ کے آفٹر شاکس نظرآ رہے ہیںاور تبدیلیوں کا عمل جاری ہے ہم پھر سے تحریک شروع کریں گے،عوام اس ناہل حکومت سے جان چھڑانے کی طرف جا رہے ہیں ،سیاسی تحریکوں کے نتائج فوری نہیں آتے۔ انہوں نے کہا ہے کہ الیکشن میں ووٹر کے ووٹ چوری کرنے والے کی تلاش میں ہیں انشاء اللہ آئندہ انکو ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم واحد لوگ ہیں جو اپنے نظریے کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں،ہم نے انگریز کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی نہیں مانا،کسی سے محاذ آرائی نہیں چاہتے ،جہاں آپکی رائے کے خلاف فیصلہ ہو وہاں عدالت کو ہی اکھاڑ دو7سال ایک کیس عدالت میں چلتا رہا اور آج کہتے ہیں کہ عدالت کی تشکیل ہی غلط تھی آج اگر کوئی رٹ لیکر پشاور ہائی کورٹ چلا گیا تو کیا ہوگاکیونکہ خصوصی عدالت کا جج پشاور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ہے۔