کراچی (آن لائن) عام لوگ اتحاد کے چیئرمین جسٹس (ر) وجیہ الدین نے سنگین غداری کیس میں مشرف کی سزا کالعدم قرار دیے جانے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کی کارروائی آئین و قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کی ساری کارروائی یکطرفہ لگ رہی تھی۔ مشرف کے وکیل سے زیادہ ان کی حمایت حکومت کا ایڈیشنل اٹارنی کر رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ عدالتیں اپنے ہی لیول کے ججوں کے بارے میں رٹ کے اجرا سے ہمیشہ احتیاط کیا کرتی ہیں اور خصوصی عدالت بینچ میں تو خود لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج بھی شامل تھے۔ خصوصی عدالت کا فیصلہ درست تھا یا نہیں، اس مسئلے میں پڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ فیصلے پر اپیل کی جاسکتی ہے اور یہ معاملہ جب بھی سپریم کورٹ میں جائے گا تو وہاں سے مناسب آئینی اور قانونی نتائج نکلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ ایک ایسی عدالت کے بارے میں فیصلہ آیا جو تقریباً لاہور ہائی کورٹ کے لیول کی عدالت ہے۔ لیکن لاہور ہائی کورٹ میں عدالتی روایات اور بنیادی نکات کو نظر انداز کیا گیا، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ حکم لکھانے سے پہلے عدالت نے کہا کہ خصوصی عدالت نے مشرف کا سیکشن 342 کا بیان نہیں لیا تھا اس لیے بھی فیصلہ کالعدم ہے حالانکہ خصوصی عدالت نے ملزم کو کمیشن بھیج کر اور اسکائپ پر بیان ریکارڈ کرانے کی پیشکش کی تھی لیکن پھر بھی وہ تیار نہیں ہوئے۔ اب عدالت اور کیا کرے۔ ایسی صورتحال پر سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) آصف سعید کھوسہ کا ایک حکم موجود ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر ملزم بیان ریکارڈ کرانے سے بھاگ رہا ہو تو معاملے کو وہیں ختم کرکے فیصلہ سنا دینا چاہیے۔