صرف ایک ہی راہ نجات ہے

1414

قرآن کی سورۃ العصر میں زمانے کو گواہ بناکر یعنی زمانے کی قسم کھا کر یہ فرما دیا گیا ہے کہ: ’’انسان سخت خسارے اور نقصان میں ہے‘‘ اور پھر خسارے میں رہنے والے گروہ کے متعلق بھی یہ فرمادیا گیا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان و یقین کی دولت سے محروم ہیں، جو کردار کے نہایت بد ہیں، ان کی ایک خصلت یہ ہے کہ وہ حق یعنی سچائی کی تلقین و تبلیغ نہیں کرتے اور دوسری خصلت یہ ہے کہ وہ صبر کی بھی تاکید نہیں کرتے۔ خسارہ اٹھانے والے لوگوں کی بیان کردہ چاروں نشانیاں پڑھتے جائیں اور پھر من حیث القوم اگر ہم (پاکستانی) اپنا تجزیہ کرتے جائیں تو قرآن کی سورۃ العصر میں بیان کردہ ساری کمزوریاں اور برائیاں ہم میں بدرجہ اتم نہ صرف موجود ہیں بلکہ سب کچھ جان لینے کے باوجود بھی ہماری ضد اور ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے اعمال اور کردار پر غور کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان بنانے کی بنیاد صرف اور صرف دو قومی نظریہ ہی تھا۔ یہ بات برِصغیر کے سارے مسلمان جان چکے تھے وہ جن لوگوں کی اکثریت کے درمیان رہ رہے ہیں وہاں وہ اپنی اسلامی تہذیب اور اس کے حقیقی تقاضوں کے مطابق اپنی زندگی نہیں گزار سکیں گے۔ اسلام ایک آفاقی دین ہے اور اس کے لیے ایک ایسا خطہ زمین درکار ہوتا ہے جہاں ہر فرد اسلامی تعلیمات میں ڈھلا ہوا ہو اور اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے احکامات اور لائے ہوئے ضابطہ حیات کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے۔ اللہ کی زمین پر اللہ کے قانون کا ایسا نمونہ قائم کر سکے جو آپؐ کے زمانے میں نافذ کیا گیا تھا تاکہ دنیا حقیقت میں چلتا پھرتا اسلام دیکھ سکے۔اس دور کے مسلمانوں نے ساری قربانیاں اسی لیے دیں تھیں کہ ان کو ایک ایسا خطہ زمین مل جائے جہاں وہ کسی بھی قسم کی تفریق کا شکار نہ ہوں، کوئی بڑا ہو نہ چھوٹا، کوئی امیر ہو نہ فقیر، کوئی کالا نہ کہلائے اور نہ ہی کسی گورے کو فخر و غرور کا حق حاصل ہو۔ یہی وہ نعرے تھے جو برِصغیر کی فضاؤں میں گونج رہے تھے۔ دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کا سبب ہندومت اور اسلام کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا لیکن صد افسوس کے پاکستان بن جانے کے بعد وہی ملک جو اللہ اور اس کے رسول کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اس میں ٹھیک 14 اگست کو جب گھڑی کی ساری سوئیاں اعشاریہ 1 سیکنڈ کا اعلان کر رہی تھیں پاکستان بنانے والے اپنے سارے وعدوں کو یکسر فراموش کرکے پاکستان میں ان ہی قوانین کے نفاذ کا فیصلہ کر چکے تھے جس سے نجات کے لیے اس وقت کے مسلمانوں نے 2 سو سال سے بھی زیادہ جدو جہد کی تھی۔
ایک جانب پاکستان اگر اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا تو دوسری جانب ہمیں یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے دو قومی نظریہ کے مطابق بھارت بھی ہندومت کی بنیاد پر ہی وجود میں آیا تھا۔ پاکستان بن جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد ہم اپنے دین پر متحد نہ رہ سکے۔ پہلے دو لسانی اکائیوں میں تقسیم ہو کر اپنا آدھا گنوا بیٹھے اور پھر باقی ماندہ پاکستان میں متحد رہنے کے بجائے بے شمار اکائیوں میں تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم پوری دنیا میں اسلام کے نام پر نہ صرف ایک بد نما داغ بن کر رہ گئے بلکہ جگ ہنسائی کا سبب بھی بن گئے۔ ایک جانب ہمارا یہ عالم ہے کہ ہمیں اپنے مذہبی، مسلکی، علاقائی، لسانی، وفاقی، صوبہ جاتی اور سیاسی اختلافات سے فرصت نہیں تو دوسری جانب بھارت کا یہ عالم ہے کہ وہ 72 برس بعد اپنے اصل مقصد تقسیم (ہندومت) کی جانب تیزی کے ساتھ پلٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ہندو مت کے سخت گیر بھارت پر چھاتے جارہے ہیں اور ان کے عوام میں وہی نفرتیں عود عود کر آرہی میں جو 1947 سے پہلے مسلمانوں کے لیے پائی جاتی تھیں۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم نے اسی ہندو انتہا پسندانہ رویوں کے متعلق بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ایٹمی بھارت پر ہندو انتہا پسند نظریے نے قبضہ کرلیا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں بھارت کے متنازع شہریت ترمیمی قانون سے متعلق ایک آرٹیکل پوسٹ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آر ایس ایس کے انتہا پسندانہ نظریے نے ایک ارب سے زائد افراد کو یرغمال بناکر جوہری ملک پر قبضہ کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نظریہ نسلی برتری اور مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں سے نفرت پر مبنی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جب بھی آر ایس ایس کا یہ جن بوتل سے باہر نکلا اس نے ہمیشہ خون خرابہ کیا‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کا انتہا پسندانہ نظریے کی جانب بڑھ جانا ایک بڑی تشویش کی بات ہے لیکن میرے نزدیک اس سے بھی تشویشناک اور قابل ملامت بات یہ ہے کہ آخر وہ کیا بات ہے جو پاکستان میں اسلامی نظریے کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ جس خطے کو حاصل ہی اس لیے کیا گیا ہو کہ وہاں اللہ کا نظام نافذ کیا جائے گا وہاں اگر وہ نظام نافذ کر دیا جاتا، پاکستان اسلامی نظام کا نمونہ ہوتا، یہاں حقیقی امن و سکون ہوتا، انصاف سستا اور ہر فرد کی دہلیز تک پہنچا ہوا ہوتا، حکمران اسلامی تعلیمات کے مظہر ہوتے، سادہ زندگی گزار رہے ہوتے، ملک کی دولت کو لوٹنے کے بجائے تنکوں کی ٹوپیاں بن بن کر اپنے گھر کی ضرورتوں کو پورا کر رہے ہوتے۔ کوئی چودھری، خان، سردار، وڈیرا، ملک اور جاگیردار نہ کہلاتا، حاکم خادم ہوتا، ہر شخص کے سرپر گھر کا سایہ ہوتا، سود سے پاک بینکنگ سسٹم ہوتا، ہر کام قابلیت کی بنیاد پر ہو رہا ہوتا، کوئی لسانی، مسلکی، علاقائی، اور صوبائی تقسیم نہ ہوتی اور ہر فرد چلتا پھرتا قرآن نظر آرہا ہوتا تو بھارت کی کیا مجال تھی کہ وہ ہندوستان میں موجود مسلمانوں کے خلاف کوئی اوچھی اور ظالمانہ کارروائی کی ہمت کر پاتا۔ آج وزیر اعظم شاید یہ بات بھولے ہوئے ہیں کہ برصغیر کی تقسیم ہی دو نظریات پر ہوئی تھی۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں کوئی نظریہ بھی اس وقت تک نافذ نہیں کیا جاسکتا جب تک اس کا ایک ایک فرد اپنی ’’انتہا‘‘ پر نہ ہو۔ کیا آپؐ اور ان کے صحابہ کرام کو لوگ (نعوذباللہ) پاگل اور مجنوں نہیں کہا کرتے تھے۔ کیا جب پاکستان بنانے کی مہم اپنے عروج پر تھی تو ہندوستان کے سارے مسلمانوں کو دنیا ہوش مند خیال کرتی تھی۔ کیا افغانی، فلسطینی اور کشمیری عقل و ہوش والے لگتے ہیں۔ دنیا کے سارے انقلابی پاگل اور مجنوں ہی تو ہوتے ورنہ کوئی بھی انقلاب کیسے آ سکتا ہے۔ اگر آج آپ کو بھارت کا رویہ انتہا پسندانہ لگتا ہے (اور ہے) تو کیا آپ نے اس بات پر غور نہیں کیا پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ میں پورا پاکستان نہ صرف رکاوٹ بنا ہوا ہے بلکہ جو تنظیمیں، جماعتیں اور گروہ اسلامی نظام کا نفاذ عملاً پاکستان میں دیکھنا چاہتی ہیں، ان سب کے خلاف پورا پاکستان شدت پسندی کا مظاہر کرنے پر تلا ہوا نظر آتا ہے۔ انہیں جہاد سے دور رکھنا چاہتا ہے، ان پر بمباریاں کر رہا ہے، ان کی بلاجواز گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں، انہیں لاپتا کیا رہا ہے، ان پر عرصہ حیات تنگ کیے ہوئے ہے جس کی سب سے بڑی مثال اسلام آباد کی لال مسجد اور دارالعلوم حفصہ ہے جہاں کسی یہودی، عیسائی، ہندو یا سکھ کو نہیں مسلمانوں کو بھسم کیا گیاجس میں نو عمر اسلام اور جہاد سے سرشار بچیاں بھی شامل تھیں۔
وزیر اعظم بھارت کے متنازع شہریت بل کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اگر کروڑوں مسلمانوں کی شہریت کو خطرے میں ڈال دینے کے مترادف ہے تو یہ بھی تو سوچیں کہ پاکستان میں چالیس چالیس سال سے بھی زیادہ عرصے سے آباد بہاری، بنگالی، برمی اور افغانی، جو سو فی صد مسلمان ہیں، وہ اب تک پاکستانی شہریت سے کیوں محروم ہیں۔ حد یہ کہ وہ ہندوستان سے آئے مسلمان جن کی قربانیوں کی بندولت پاکستان وجود میں آیا، 2018 کی مردْم شماری میں اس بات کے لیے کیوں مجبور کیے گئے کہ وہ اپنے پردادا کے زمانے سے یہ ثابت کریں کہ وہ پاکستانی ہیں۔ جب ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہندوؤں سے بھی بھیانک سلوک کرنے سے باز نہیں آتے تو غیر مسلم تو پھر بھی غیر مسلم ٹھیرے۔ بے شک بھارت میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ غیر انسانی اور بہیمانہ ہے لیکن ہمیں دوسروں کی جانب دیکھنے سے پہلے مسلمان ہونے کے ناتے اپنی جانب غور کرنا ہوگا۔ جب تک ہم اپنی اصلاح نہیں کریں گے، اللہ کے دین کی جانب لوٹ کر نہیں آئیں گے اور 15 سو سال پرانے مسلمانوں کی طرح ’’پاگل‘‘ اور ’’مجنوں‘‘ نہیں بن جائیں گے، دنیا بھر کے مسلمان اسی طرح اذیت اور ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے۔ اگر دنیا بھر کے مسلمانوں کو کفار کے ظلم و ستم سے بچانا ہے تو اللہ سے کیے گئے وعدے کی جانب ہمیں لوٹ کر آنا ہے۔ اس راہ کے علاوہ اور کوئی راہ نجات ہے ہی نہیں۔