علی گڑھ یونیورسٹی قیام پاکستان کی جدوجہد کے لیے ایک استعارہ رہی ہے۔ جس نے برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اتنا اہم کہ اس کردار نے ایک خواب کو زندہ حقیقت بنادیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گزشتہ ایک صدی سے مسلمانوں کی ثقافت اور تہذیبی شناخت کے لیے مرکز کے طور پر جانی جاتی ہے۔ لگتا ہے وہ آج ایک بار پھر آزادی کے نعرے کے ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک اہم کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ جہاں کے طلبہ مظاہروں کی ایک خاص بات حجاب کے ساتھ مسلم خواتین کی شمولیت ہے۔ جو نہ صرف اس مزاحمت میں شامل ہیں بلکہ قائدانہ کردار ادا کررہی ہیں۔ اس مزاحمت کی للکار شہریت کے متنازع قانون کے خلاف لگائی گئی ہے۔ جس میں مسلمانوں سے شہریت کے ثبوت مانگے جارہے ہیں اور دوسری طرف تین پڑوسی ممالک سے انڈیا آنے والی چھ برادریوں کو شہریت دینے کی بات کی گئی ہے مگر ان میں مسلمان شامل نہیں ہیں۔ اس کے خلاف مزاحمت کے لیے دو مسلم تعلیمی ادارے احتجاج کا گڑھ بن گئے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی ۔ انڈیا کی تاریخ میں مسلم خواتین اتنی بڑی تعداد میں احتجاج کے لیے سڑکوں پر نہیں نکلی ہیں۔ وہ خود ہی قیادت بھی کررہی ہیں، ان کے باحجاب چہرے احتجاج کے لیے نئی شناخت بھی بنارہے ہیں۔
دہلی کی شدید سردی میں یہ خواتین کئی ہفتوں سے احتجاج کررہی ہیں۔ یہ سب اسی رات سے شروع ہوا جب جامعہ ملیہ اسلامیہ پر حملہ کیا گیا۔ اس رات دس خواتین اپنے گھروں سے نکلیں اور احتجاج کے لیے بیٹھ گئیں۔ اب ان کے ساتھ ہزاروں ہیں اور برقع اور حجاب ان کی شناخت واضح کررہے ہیں، انہیں نہ حجاب سے شرم آتی ہے اور نہ مسلمان کہلانے سے ڈر لگتا ہے یہ ایک طرح سے خوف اور ڈر کو توڑ دینے کا اعلان ہے۔ جس میں پچھلے سات عشروں کی نسلیں مبتلا تھیں اس دوران پچھلے ماہ ایسا بھی ہوا کہ انڈیا کے وزیراعظم مودی نے دارالحکومت میں ریلی نکالی جہاں خواتین کی کمی کو باقاعدہ محسوس کیا گیا جب کہ دوسری طرف خواتین کی ایک بڑی تعداد ان کے شہریت کے ترمیمی بل کی مخالفت میں سڑکوں پر موجود تھی۔ مسلم خواتین انڈیا میں اس صورتِ حال کو سمجھ رہی ہیں۔ انہیں یہ بھی اندازہ ہے کہ یہ ایک جنگی صورت حال ہے اور مسلم خواتین ایک عرصے تک خاموش رہی ہیں لیکن اب نہیں، کیوں کہ اب انہیں ان کے گھروں سے بے دخل کیے جانے کے خطرات ہیں۔ بلکہ گھر نہیں ملک چھوڑنے اور پناہ گزین بنانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ جدید تعلیم سوشل میڈیا اور سیاسی شعور نے انہیں اعتماد ہی نہیں دیا بلکہ آگے بڑھ کر واضح طور پر بات کرنے کا سلیقہ بھی عطا کیا ہے۔ احتجاج کے لیے مسلم خواتین شہریت کے ترمیمی بل اور این آر سی کے خلاف تحریک کی قیادت کررہی ہیں ان تحریکوں کے پیچھے غیر مذہبی، سیکولر بائیں بازو اور آزاد خیال تنظیموں اور این جی اوز کا کوئی کردار نہیں ہے۔ مسلم خواتین اس لحاظ سے بھی شریت کے معاملے پر جدوجہد کررہی ہیں کہ وہ اقلیت نہیں ہیں۔ وہ اپنی شناخت لے کر سامنے آرہی ہیں اور پُراعتماد، صاف اور واضح الفاظ میں اپنی بات کہہ رہی ہیں۔
تعلیم اور بیداری نے مسلم خواتین میں سیاسی طور پر باشعور طبقے کو جنم دیا ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں 30 فی صد سے زیادہ مسلم خواتین ہیں جو پوسٹ گریجویٹ کورسز میں پڑھ کر 50 فی صد سے زیادہ ہوجاتی ہیں۔ اس کے لیے بھی انڈیا کی حکومت خوف زدہ ہے اور اس ادارے کی مسلم شناخت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ دوسری یونیورسٹیوں کی طرح یہاں دیگر دلت اور ہندو طلبہ کو داخلے کے لیے ریزویشن دے ورنہ اس کی فنڈنگ بند کردی جائے گی۔ یونیورسٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہاں کسی کے لیے ریزویشن نہیں ہے، داخلوں کے لیے 50 فی صد ان طلبہ کے لیے مخصوص ہے جنہوں نے علی گڑھ اسکول سے انٹر کا امتحان پاس کیا ہو، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا طبقے سے ہو، باقی 50 فی صد سیٹیں باہر کے طلبہ کے لیے کھلی ہوئی ہیں۔ مسلمانوں کے ان تعلیمی اداروں خاص طور سے علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے متعلق حکومت کی پالیسی دراصل ’’ہندوتوا‘‘ کی پالیسی کا ایک حصہ ہے، اس کے ’’اقلیتی کردار‘‘ یعنی مسلمانوں کے لیے خاص کو ختم کیا گیا تو اس کے مسلمانوں پر تعلیمی اور نفسیاتی دونوں لحاظ سے اثرات مرتب ہوں گے۔ 2018ء میں علی گڑھ یونیورسٹی میں قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر کو ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا اس دوران جھڑپ میں درجنوں طلبہ زخمی ہوئے۔ مودی کی حکومت مسلم دشمنی میں اپنے شہریوں کے خلاف کہاں تک جائے گی۔ اس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ پر ہونے والے تشدد پر سماجی کارکنان اور دانشوروں نے پیش کی ہے اس رپورٹ میں فورسز پر حد سے زیادہ طاقت کے استعمال کا الزام عائد کیا گیا اور کہا گیا کہ فورسز کی کارروائی میں مذہبی عصبیت اور جانبداری کا پہلو نمایاں ہے۔ اس رپورٹ کو پیش کرنے والی ٹیم کے ایک نمایاں معروف سماجی کارکن ’’ہرش مندر‘‘ نے کہا کہ ’’یونیورسٹی کیمپس میں طلبہ کے خلاف ’’اسٹین گرینیڈ‘‘ استعمال کیے گئے جن کا استعمال عموماً جنگ یا شدت پسندی کے خلاف آپریشن میں ہوتا ہے‘‘۔
یاد رہے کہ یہ اسٹین گرینیڈ لگنے سے زخمی ہونے والے ایک طالب علم کا ہاتھ ایسا پھٹا کہ وہ اپنے ایک ہاتھ سے محروم ہوگیا۔ لگتا ہے کہ مودی کشمیر میں پیلٹ گن کے بعد انڈیا میں اسٹین گرینیڈ استعمال کرنے پر آمادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تشدد ہتھیاروں کا استعمال اور مسلم دشمن پالیسی کے باعث آزادی کے نعرے اب بھارت کے طول و عرض میں لگائے جارہے ہیں۔ یعنی کشمیر بھارت بنا نہ بنا بھارت کشمیر ضرور بن گیا ہے۔