خضدار( نمائندہ جسارت) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ بھارت یا امریکا نہیں ، ہمار اصل مسئلہ ملک کا بگڑا ہوا نظام ہے ۔ قوم متحد ہو تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں مغلوب نہیں کر سکتی ۔ طاقتور اسٹیبلشمنٹ جس کو چاہتی ہے حکومت میں لاتی ہے اور جس کو چاہے اقتدار سے نکال دیتی ہے ۔ دبائو میں آکر آج اکٹھے ہونے والے کل پھر آپس میں دست و گریبان ہوں گے ۔ کرپٹ اور نااہل سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کا موقع دیتے ہیں ۔ پارٹیاں ملک و قوم کی نہیں ذاتی مفادات کی جنگ لڑتی ہیں ۔ سیاسی پارٹیاں خاندانی پراپرٹی بن چکی ہیں ۔ جماعت اسلامی ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کی جدوجہد کر رہی ہے اگر آئین و قانون پر عملدرآمد ہو اور تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں تو پاکستان ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن ہوسکتاہے ۔ قوم کو علاقائی ، لسانی اور مسلکی تعصبات سے نکل کر ملک میں نظام مصطفیؐکے نفاذ پر متحد ہونا ہوگا ۔ قرآن و سنت کا نظام ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے ۔جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی میڈیا سیل کے مطابق ان خیالات کااظہار انہوںنے خضدار میں میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی بلوچستا ن کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی ، سابق رکن صوبائی اسمبلی میر یونس عزیر زہری ، صدر پریس کلب عبداللہ شاہوانی اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی موجود تھے ۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ ملک کا پورا نظام آئین و قانون کے بجائے افراد کے گرد گھوم رہاہے اس لیے معاشرے کے بجائے افراد ترقی کر رہے ہیں ۔ آج بھی ملک پر مغلیہ نظام مسلط ہے جس میں سیاسی کارکن چند خاندانوں کی غلامی پر مجبور ہیں ۔ جب تک ہم ذاتی اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے لیے نہیں سوچتے ، ترقی و خوشحالی کی منزل پر نہیں پہنچ سکتے ہم سب ایک کشتی کے سوار ہیں اگر فرد کے بجائے معاشرے کی ترقی کی طرف توجہ نہ دی گئی تو آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی تاریک ہوگا ۔ حکمرانوں کی طرف سے لیے گئے بے تحاشا قرضوں کی وجہ سے آج قوم کا بچہ بچہ مقروض ہے ۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ ملک میں بے انتہا مہنگائی اور بے روزگاری کے اصل مجرم سابق اور موجودہ حکمران ہیں ۔ آج نوجوان روزگار ، مظلوم انصاف ، بیمار علاج اور نئی نسل تعلیم سے محروم ہے ۔ انہوںنے کہاکہ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ چشم کشا ہے جس کے مطابق آنے والے سالوں میں ملکی معیشت مزید زبوں حالی کا شکار ہوگی ۔ غربت اور مہنگائی بڑھے گی اور عوام کی مشکلات اور پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگا ۔ انہوںنے کہاکہ ہر چیز کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکاہے جبکہ آمدن وہی ہے ۔ 15 ماہ میں 97 لاکھ لوگ خط غربت سے نیچے لڑھک گئے ہیں جبکہ 22 کروڑ آبادی میں سے 8 کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ 34 لاکھ بے روزگار ہوئے ہیں اور 9 لاکھ ڈاکٹرز اور انجینئرز ملک چھوڑ کر باہر بھاگنے پر مجبور ہوئے ۔ انہوں نے کہاکہ بین الاقوامی سروے کے مطابق دنیا کے 179ممالک میں پاکستان 152 نمبر پر آگیاہے اور بنگلا دیش بھی ہم سے معاشی ترقی میں 5 درجے بہتر ہے ۔ پاکستان کی کرنسی ٹکے، افغانی اور بھارتی روپے سے بھی نیچے گر گئی ہے۔ انہوںنے کہاکہ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ ابھی عوام کی مزید چیخیں نکلیں گی ۔ انہوںنے کہاکہ جہاں مظلوم کو انصاف نہ ملے اور عدالتوں کے دروازے سونے کی چابی سے کھلیں ، وہاں تباہی اور بربادی میں کوئی کسر نہیں رہتی ۔سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ بلوچستان معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے گیس اور تیل کے علاوہ سونے اور کوئلے کی کانیں ہیں اللہ تعالیٰ نے بلوچستان کی سرزمین کو بے پناہ وسائل سے نوازا ہے مگر ان تمام نعمتوں کے باوجود پسماندگی اور غربت اس صوبے کے عوام کا ہی مقدر کیوں ہے ؟ تعلیم ، روزگار اور علاج کی سہولتوں میں سب سے پیچھے بلوچستان ہے ۔ انہوںنے کہاکہ ملک پر مسلط ظلم و جبر کے اس نظام کے بارے میں وزیراعظم اور چیف جسٹس بھی پریشانی کا اظہا ر کرتے ہیں مگر اس کو بدلنے کے لیے کوئی تیار نہیں ۔ آمریت ہو یا نام نہاد جمہوریت ، سب ظلم کے اس نظام کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں ۔ پرویز مشرف 8 سال میں کچھ نہیں کر سکے ۔ بار بار کی حکمرانی کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کچھ نہیں کر سکیں ۔ انہوںنے کہاکہ یہ لوگ اسٹیٹس کو کے اس نظام کی پیداوار ہیں اور اسی نظام کو برقرار رکھنے میں اپنی بقا سمجھتے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ تمام خرابیوں کی جڑ حکومت ہے ۔ حکومت ٹھیک ہو جائے تو پورا نظام درست ٹریک پر آ جائے گا ۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ جماعت اسلامی حکومت میں نہ ہوتے ہوئے بھی ملک میں ہزاروں یتیم بچو ں کی تعلیم و تربیت اورپرورش کے پروجیکٹ چلا رہی ہے ۔ بلوچستان کے 12 سو بچوں کی کفالت جماعت اسلامی کر رہی ہے ۔ آواران کے زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لیے جماعت اسلامی نے کراچی اور لاہور جیسے شہروں سے چندہ اکٹھا کر کے 38 کروڑ روپے خرچ کیے ۔ انہوںنے کہاکہ بلوچستان کی ٹوٹی سڑکیں ، تعلیمی اداروں ، اسپتالوں اور دیگر سرکاری اداروں کی حالت زار دیکھ کر دکھ ہوتاہے لیکن جہاں کرپشن کا ناسور ہو، وہاں ترقی نہیں ہوتی ۔ بلوچستان کے نااہل حکمران 37 ارب روپے کا ترقیاتی فنڈ خرچ نہیں کر سکے ، ورکس اور پلاننگ میں 65 فیصد کرپشن نے پورے سسٹم کو تباہی کے راستے پر ڈال دیاہے ۔ اگر ان خرابیوں کو دور کردیا جائے تو بلوچستان ترقی و خوشحالی میں سب سے آگے نکل سکتاہے ۔ انہوںنے کہاکہ بلوچستان کی خوشحالی پورے پاکستان کی خوشحالی کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔