مولانا مودودی کی پیش گوئیاں

1984

مولانا مودودی کوئی نجومی نہیں تھے اور نہ ہی قسمت کا حال بتانے والوں میں سے تھے، وہ ایک عالم دین تھے، اپنے اندر علم کا سمندر رکھتے تھے، برصغیر پاک و ہند کے سیاسی اتار چڑھائو پر گہری نظر رکھتے تھے، پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے سلسلے میں مولانا نے دن رات ایک کردیے تھے اور ملک کے چوٹی کے بائیس علماء کی مشاورت سے مشترکہ نکات پر مشتمل قرارداد مقاصد تشکیل دی جو آئین پاکستان کا ایک اہم حصہ ہے۔ علامہ اقبال قومی شاعر تھے جنہوں نے اشعار کے ذریعے امت کی حالت زار کی بھرپور عکاسی کی اور یہ کہ مسلمانوں کو مایوسی سے بچانے کے لیے مستقبل کی نوید بھی سنائی، جیسا کہ ان کا یہ شعر ہے ؎
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
مولانا مودودی اور علامہ اقبال وہ نابغہ روزگار شخصیات ہیں جنہوں نے بیسویں صدی عیسوی میں اپنی تحریروں اور شاعری کے ذریعے امت مسلمہ کو جھنجھوڑنے، جگانے اور امت کی نشاۃ ثانیہ کے حصول کی جدوجہد کے لیے اٹھا کر کھڑا کرنے کا فریضہ انجام دیا۔
نیو چینل کے پروگرام حرف راز میں 1946 کی مولانا مودودی کی ایک آڈیو سنائی گئی جس میں انہوں نے ہندو قوم پرستی کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔ آج پورے بھارت میں شہریت بل کے حوالے جو احتجاج ہورہا ہے اس تناظر میں مولانا کے یہ الفاظ بلکہ ایک طرح کی پیش گوئی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ تقریر کی یہ کلپ یوٹیوب پر موجود ہے، مولانا نے کیا کہا یہ بتانے سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کی علمی شخصیات اس حکیم کی مانند ہوتی ہیں جو مریض کی نبض پر ہاتھ رکھ کر نہ صرف مرض کی تفصیل بتاتی ہیں بلکہ مرض سے نجات حاصل کرنے کے لیے دوا اور پرہیز بھی تجویز کرتی ہیں اور اس کے صحت مند ہوجانے کی خوشخبری بھی سناتی ہیں۔ قیام پاکستان سے ایک سال قبل مولانا کہہ رہے ہیں کہ
’’ہندو قوم پرستی دو ٹانگوں پر قائم ہے ایک تو انگریز کے مقابلے میں آزادی کی جدوجہد اور دوسرے مسلمانوں سے دشمنی تقسیم ہند کے بعد ایک ٹانگ آپ سے آپ ٹوٹ جائے گی یہ کہ آزادی مل جائے گی، ایک ٹانگ برقرار رہے گی اور وہ ہے مسلم دشمنی۔ ہندو قوم پرست پوری کوشش کرے گا اپنی اس ٹانگ کو برقرار رکھے گا، آپ یقین رکھیے ہندو قومیت اپنے اندر جو تضادات رکھتی ہے ان تضادات کی بدولت یہ خود برے انجام کا شکار ہوگی اس وقت تک آپ کو انتظار کرنا ہو گا‘‘۔
آج جو کچھ بھارتی حکمران شہریت بل کے نام پر کررہے ہیں اور جس طرح پورے ہندوستان میں احتجاج کی لہر چل رہی ہے وہ کیا مولانا کی اس پیش گوئی کے مطابق نہیں ہے۔ پھر مولانا کی وہ معرکۃ الآرا تحریر کس نے نہیں پڑھی ہو گی، جو شہادت حق (کتابچہ) میں ہے کہ (یہ قیام پاکستان سے قبل کی تقریر ہے) ’’ایک وقت آئے گا کمیونزم کو ماسکو میں پناہ نہ ملے گی اورسرمایہ دارانہ نظام نیو یارک اور واشنگٹن میں تھرتھراہٹ کا شکار ہو گا‘‘۔ افغان جنگ میں روس کی شکست کے بعد کیا مولانا کی نصف پیش گوئی پوری نہیں ہوئی؟ پانچ ریاستیں آزاد ہوئیں روس کے زیر اثر ممالک نے کمیونزم کا قلاوہ اپنے گلے سے اتار دیا۔ اب سرمایہ دارانہ نظام بھی تیزی سے اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔
1970 کی انتخابی مہم چل رہی تھی ہر سیاسی جماعت پوری قوت سے اپنی پارٹی کی مہم چلا رہی تھی، شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے بنگلا قومیت اور مغربی پاکستان سے نفرت کو اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بنایا ہوا تھا جب کہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے روٹی کپڑا مکان کے نعرے پر اپنی انتخابی بساط بچھائی۔ جس طرح عوامی لیگ نے مغربی پاکستان سے اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا اسی طرح بھٹو صاحب نے مشرقی پاکستان سے اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے مولانا مودودی کا ایک اخباری بیان سامنے آیا کہ یہ جو دو جماعتیں دونوں صوبوں سے ابھر کر سامنے آرہی ہیں، اگر خدا نخواستہ یہ جماعتیں کامیاب ہوگئیں تو اس ملک کو متحد رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اور پھر یہی ہوا کہ مغربی پاکستان سے بھٹو صاحب کامیاب ہوئے اور مشرقی پاکستان سے مجیب الرحمن کامیاب ہوئے اور یہ دونوں کامیاب لیڈر ملک کو متحد رکھنے میں ناکام ہوگئے۔
یہ بھٹو دور کی بات ہے کہ لاہور میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ایک نوجوان عبدالوحید کسی کالج میں سرکاری تنظیم سے ٹکرائو کے نتیجے میں شدید زخمی حالت میں اسپتال آیا اس کے جو ساتھی اسے زخمی حالت میں اسپتال لائے تھے وہ ڈاکٹروں کی منت سماجت کرتے رہے لیکن چونکہ اوپر سے حکم آچکا تھا کہ زخمی کو کسی قسم کی طبی امداد نہیں دی جائے گی، چنانچہ اس زخمی نوجوان نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی، اسلامی جمعیت طلبہ کے بچے بڑی دل گرفتہ کیفیت میں مولانا مودودی کے پاس آئے اور حکومت وقت کی بے حسی کی تفصیل بتائی، مولانا جمعیت کے نوجوانوں بہت محبت کرتے تھے ان کے دل پر اس کا گہرا اثر ہوا اس وقت انہوں نے کہا کہ میں نے آج تک کسی کو بددعا نہیں دی لیکن آج میں بددعا دینے پر مجبور ہوں کہ اس حکومت کا ان کی آنکھوں کے سامنے زوال ہو یعنی موجودہ حکمران اپنی آنکھوں کے سامنے اپنا زوال دیکھے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب یہ حکومت ختم ہو گی تو اس کو کوئی رونے والا نہیں ہو گا۔ اور پھر یہی ہوا کہ نہ صرف حکومت ختم ہوئی بلکہ اپنی آنکھوں سے پھانسی کا پھندا دیکھا اور جب پھانسی ہوئی تو پورے ملک میں ایک پتا بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا مکمل خاموشی رہی بلکہ ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ کچھ عرصے بعد پی پی پی کے کچھ کارکنوں کی ایک تصویر شائع ہوئی وہ احتجاج کررہے ہیں اور ساتھ میں رو بھی رہے ہیں کسی نے اس تصویر کے حوالے سے مولانا سے سوال کیا کہ آپ نے تو کہا تھا اس حکومت کے زوال پر کوئی رونے والا بھی نہیں ملے گا اب دیکھیں یہ لوگ تو رو رہے ہیں، مولانا نے برجستہ جواب دیا کہ یہ لوگ بھٹو کے لیے نہیں اپنے پیٹ کے لیے رو رہے ہیں۔ آخر میں مولانا کی ایک تحریر پیش کررہے ہیں جو دعوتی کام کرنے والے کارکنوں کے لیے ہے یہ پیش گوئی تو نہیں ہے بلکہ اس راہ میں آنے والی آزمائیشوں کی نشان دہی ہے کہ جو لوگ اخلاص اور جانفشانی سے دعوت دین کا کام کرتے ہیں انہیں کن کن چیزوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
’’اسے (قرآن) پوری طرح آپ اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کردیں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اس طرح قدم اٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزول قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکے اور حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر احد سے لے کر حنین اور تبوک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجہل اور ابولہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا، منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے سابقین و اولین سے لے کر مولفتہ القلوب تک سب ہی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ لیں گے اور برت بھی لیں گے اور اس کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں‘‘۔