حکومت نے ایوان صدر کو آرڈیننس فیکٹری بنا دیا،رضا ربانی

122

اسلام آباد(نمائندہ جسارت)پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ حکومت نے ایوان صدر کو آرڈیننس فیکٹری بنادیا ہے۔سینیٹ میں اجلاس سے خطاب کے دوران رضا ربانی نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آئین موجود بھی ہے اور معطل بھی اور اس پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے۔انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ایوان صدر میں ایک شخص صرف دستخط کرنے کے لیے بیٹھا ہے؟۔رضا ربانی نے نیب ترمیمی آرڈیننس پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت بامعنی احتساب چاہتی ہے تو سب کا ایک جگہ احتساب کیا جائے ورنہ دیگر اداروں کی طرح اراکین پارلیمنٹ کے احتساب کا حق بھی پارلیمنٹ کو دیا جائے رضا ربانی نے نیب ترمیمی آرڈیننس میں حکومت کی جانب سے مجوزہ ترمیم پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اس قانون کے تحت کاروباری شخصیات، بیورو کریٹس، ججوں اور فوجیوں کو کارروائی سے استثنا دے دیا ہے، تو پھر باقی رہ کون جائے گا، صرف میں اور آپ باقی رہ جائیں گے۔انہوں نے سوال کیا کہ کیا نیب کا قانون صرف سیاستدانوں کے لیے ہے؟ اور تجویز پیش کی کہ اگر سب کے لیے احتساب کا عمل اپنا اپنا اور ہر ادارے کا اپنا احتساب کا نظام ہے تو اراکین پارلیمنٹ کے احتساب کا حق بھی پارلیمنٹ کو دیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت واقعی احتساب چاہتی ہے تو بامعنی احتساب کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے ایک قانون، ایک بیورو اور بلاتفریق احتساب کے تحت سب کا ایک جگہ احتساب کیا جائے لیکن آپ وہ کرنا نہیں چاہتے۔رضا ربانی نے کہا کہ شفاف احتساب میں کوئی مقدس گائے نہیں ہونی چاہیے اور اس کا اطلاق بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور مسلح افواج پر بھی ہونا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت آئین پر عملدرآمد نہیں کر رہی اور اس کے اقدامات سے پارلیمنٹ غیر موثر ہو رہی ہے۔پیپلز پارٹی کے رہنما نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف حکومت نے اپنی نااہلی کے سبب ایک قومی ادارے کو شرمندگی کی حالت میں لا کر کھڑا کردیا۔ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ کیسی حکومت ہے جو تین یا چار درست نوٹی فکیشنز بھی نہیں نکال سکتی؟انہوں نے ملائیشیا اور ترکی کی حکومتوں کے ساتھ وعدے کے باوجود سعودی عرب کے دباؤ کے سبب کوالالمپور اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر وزیر اعظم عمران خان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔رضا ربانی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر تین ممالک ایران، ترکی اور ملائیشیا نے ہمارے موقف کی حمایت کی اور ہم وزیر اعظم کے اس اقدام کو سراہتے ہیں کہ انہوں نے کوالالمپور جانے کا اعلان کیا لیکن پھر آپ نے اپنی سیاسی خود مختاری کو سعودی عرب کے سامنے گروی رکھ دیا اور کہا کہ ہم نہیں جائیں گے کیونکہ سعودی عرب نے ہمیں منع کیا ہے۔وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا کہ ہمارے چاروں ادارے تمام معاملات میں قصور وار ہیں اور نہ ہی بے قصور ہیں، غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، ہم سے بھی ہوئی ہوں گی، اپوزیشن، عدلیہ اور فوج سے بھی ہوئی ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے اپنے معاملات درست نہ کیے اور باہم دست و گریباں رہے تو مستقبل ہاتھ سے نکل جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخیاں بنیادی چیزوں پر رہنی چاہییں لیکن اگر ہم الیکشن کمیشن کے اراکین، چیئرمین الیکشن کمیشن کا تقرر بھی خود نہیں کر سکتے، اگر ہم احتساب کا نظام بھی متفقہ طور پر طے نہیں کر سکتے تو اس طرح سے ملک اور جمہوریت نہیں چل سکتی۔انہوں نے کہا کہ جن معاملات پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے، ان پر حکومت اور اپوزیشن کو ضرور اتفاق کرنا چاہیے تاکہ ادارے کام کر سکیں۔فواد چودھری نے تجویز پیش کی کہ نئے سال کے پہلے دن ہمیں ایک قومی ایجنڈا ترتیب دیتے ہوئے اس میں الیکشن کمیشن، احتساب کے نظام اور بڑے معاملات کو شامل کر کے ان پر بات کرنی چاہیے اور یہاں سے نئے سال کا آغاز کرنا چاہیے۔پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن نے سینیٹ اجلاس سے متعلق فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اخبارات کے ذریعے پتہ چلا کہ اجلاس بلایا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسموگ کی وجہ سے بعض ارکان اجلاس میں شرکت نہیں کر سکے، عجلت میں اجلاس بلائے جاتے ہیں تو ان کے پیچھے لمبی کہانی ہوتی ہے، اتنے عرصے کے بعد اجلاس بلایا گیا لیکن وزرا ایوان میں موجود نہیں اور قومی اسمبلی میں بھی یہی حال ہے۔اس موقع پر انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پالیسی پر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کشمیر فرائیڈے کا کیا بنا؟ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا کیا ہوا؟ کشمیر کے مسئلے پر ایک تقریر کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا گیا۔