اسلام آباد( نمائندہ جسارت) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ حکومت عوام دشمن پالیسیاںآئی ایم ایف کے کہنے پر بنا رہی ہے۔ عام آدمی کی زندگی مشکل ہو گئی ہے ۔ بجلی ، گیس کے بل ادا کرنا عوام کے لیے ناممکن ہوگیاہے ۔ 2019ء حکومت کے لیے جھوٹ پلس کا سال تھا اور 2020ء کا آغاز صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کرپشن پلس سے کیا گیا ۔ گزشتہ سال حکومت نے عوامی مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور نئے سال کے پہلے دن ہی تیل بجلی اور ایل پی جی کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ کرکے عوام کو مہنگائی کا تحفہ دیاہے۔ حکومت نے اپنی طرف سے پیغام دیا ہے کہ ٹوئنٹی20میں مہنگائی کے چھکے چوکے لگیں گے۔ حکومت ایک سا ل کی کارکردگی بتائے کہ 365 دن میں غربت ختم کرنے اور غریب کو ریلیف دینے کے لیے حکومت نے کیا قانون سازی کی ہے ۔ اس وقت ملک میں اداروں کے درمیان ٹکرائو ہے ۔ پرویز مشرف کا کیس اداروں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے ۔کوالالمپور سمٹ کا ایجنڈا وزیراعظم پاکستان سے مشاورت کے بعد طے ہواتھا مگر جب یہ سربراہی کانفرنس شروع ہوئی ، پاکستان کی کرسی خالی تھی ۔ جن لوگوں نے اقوام متحدہ میں کشمیر پر ہمارا ساتھ دیا تھا ، ہماری حکومت نے ان کو ناراض کیا ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی میڈیا سیل کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینیٹ اجلاس سے خطاب اور پارلیمنٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سراج الحق نے کہا کہ 2019ء میں حکمرانوں نے اتنے جھوٹ بولے ہیں کہ اب عوام ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔ وزیراعظم باربا ر کہتے رہے ہیں کہ2020ء میں عوام کو ریلیف دیں گے مگرنئے سال کے پہلے دن ہی مہنگائی کے سونامی نے عام آدمی کے اوسان خطا کردیے ہیں۔سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ نیب کے حوالے سے آرڈیننس سے کرپٹ ٹولے اور کرپشن کو تحفظ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بلین ٹری اور بی آر ٹی منصوبے میں سیکڑوں ارب روپے کی کرپشن چھپ نہیں سکے گی ۔ حکومت اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں دے رہی ہے کہ اس بارے میں مقدمات کو نہ سناجائے ، اس سے ثابت ہوتاہے کہ حکومت اپنی کرپشن پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے ۔سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ حکومت نے کشمیر کا مسئلہ پس پشت ڈال دیاہے ۔ آج 150 دن گزر گئے مگر ہماری حکومت کی طرف سے کچھ نہیں کیا گیا ۔ انہوںنے کہاکہ بھارت نے جس طرح آسام اور بہار میں مسلمانوں کے کیمپ بنائے ہیں اور انہیں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے ، اسی طرز پر مقبوضہ کشمیر میں بنا رہی ہے جو لوگ ان کیمپوں میں ہوں گے وہ بھارت کے شہری ہوں گے نہ پاکستان کے ۔ بھارت کشمیر میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی سازش کر رہاہے ۔ آج ہر پاکستانی ملک کے بارے میں فکر مند ہے ۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ حکومت نے ایک آرڈی نینس کے ذریعے 50 کروڑ تک کی کرپشن کو حلال قرار دیدیا ۔ حکومت کو یہ اختیار کس نے دیا ہے ۔ آئین و قانون اور شریعت تو اس کی اجازت نہیں دیتی ۔ کرپشن ایک روپے کی ہو یا ایک ارب روپے کی وہ کرپشن ہی ہوتی ہے ۔علاوہ ازیں سینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیرصدارت ہوا۔ سینیٹ میں 37 نکات پر مشتمل ایجنڈا قانون سازی، بل تحریک، رپورٹس پیش کر دی گئیں، اپوزیشن اور حکومت ارکان کے ایک دوسرے سے شائستہ زبان میں گلے شکوے جاری رہے، جماعت اسلامی نے حکومت سے سال 2019 کی کارکردگی رپورٹ کا مطالبہ وزیر خارجہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات پر خارجہ پالیسی سے متعلق سینیٹ کو بریف کریں۔ پیپلز پارٹی نے عجلت میں بلائے جانے والے اجلاس کے پیچھے گہری سازش قرار دیتے ہوئے جلد از جلد بلی تھیلے سے نکالنے کا بھی عندیہ دیا۔ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد حسین چودھری نے کہاہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخیاں ختم ہونی چاہیے، کم از کم ایجنڈا بنا کر حکومت اور اپوزیشن کواتفاق رائے لاکر سال کا آغاز کرنا چاہیے جبکہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر راجا ظفر الحق نے کہا کہ سینیٹ کا اجلاس بہت تاخیر سے بلایاگیا ہے ،اتنے عرصے تک پارلیمنٹ کو بند رکھنا اور سینیٹ کو تالے لگانا درست نہیں ،بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے پر بات کر نے کی ضرورت ہے۔بدھ کو چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدار ت ہونے والے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر راجا ظفرالحق نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ سینیٹ کا اجلاس بلانے میں بہت تاخیر کی گئی۔ انہوںنے کہاکہ اپوزیشن نے اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کرائی،ریکوزیشن جمع کرنے کے 2 دن کے اندر ہی جلدی میں حکومت نے اجلاس بلایا۔انہوںنے کہاکہ اپوزیشن کی ریکوزیشن میں 6 نکات شامل تھے، آرڈینسز کے بارے میں سینیٹ کو اندھیرے میں رکھ کر صرف قومی اسمبلی میں پیش کیے جا رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کو 144دن گزر گئے ہیں،خواتین اور بچوں سمیت کشمیریوں کو بیدردی سے شہید کیا جا رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر فوری طور پر اجلاس بلانا چاہیے تھا،ملک میں سیاسی انتقام اپنے عروج پر ہے۔انہوںنے کہاکہ ان ایشوز پر ایوان میں سیر حاصل بحث ہونا ضروری تھا،فوری طور پر اجلاس بلانے کا مقصد منفی سوچ ہے،اجلاس کے ایجنڈے میں اپوزیشن کے بجائے حکومت کے ایجنڈے کو لانا تھا،اتنے دن پارلیمنٹ کو بند رکھنا اور سینیٹ کو تالا لگا کے رکھنے سے اچھی روایت قائم نہیں ہوئی،اس سے ایک آئینی مسئلہ بھی پیدا کیا ہے۔سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ حکومت آگے بڑھنے سے پہلے 365دنوں کا حساب دے، سینیٹ نے عوام کے مفاد میں کونسی قانون سازی کی ہے،اگر قانون سازی نہ کر سکی تو اس میں قصور حکومت کا ہے،حکومت ایک دن تو عام شہری کو سکون سے گزارنے دیتی۔ انہوںنے کہاکہ مزدوردن بھر محنت مشقت کرنے کے باوجو د اس کے بچے بھوکے سوتے ہیں،خارجہ محاذ پر ہم نے کیا کیا اسکا جائزہ لینا ہو گا۔انہوںنے کہاکہ ہمارے وزیر اعظم نے ملائیشیا اور ترکی کو ساتھ لے کر چلنے کا عہد کیا تھا،کوالا لمپور سمٹ میں پاکستان کی کرسی خالی تھی،پاکستان کو بہت شرمندگی ہوئی،147دن گزرنے کے باوجود کشمیر کی صورتحال مخدوش ہے،تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک وزیر اعظم نے اپنے اداروں کے خلاف تقریر کی،انہوںنے کہاکہ پرویز مشرف کو سب سے پہلے عمران خان نے غدار قرار دیا تھا،قوم کا ایک روپیہ ہو یا ایک ارب برابر ہے،نئے نیب آرڈیننس میں حکومت نے 50 کروڑ حرام تک کی اجازت دی۔