نو من تیل اور رادھا۔۔۔ آج کی زندہ مثالیں

550

ڈاکٹر وسیم علی برکاتی
صاحب تیل بھی کیا چیز ہے۔ تیل نکالنے کے لیے اسی چیز کو کولہو میں پسوایا جاتا ہے۔ جس سے فائدہ اٹھانا مقصود ہوتا ہے۔ اگر آپ کو ناریل کا تیل چاہیے تو ناریل ہی کو کولہو میں پسوانا پڑے گا۔ اور پھر آپ مزے سے ناریل کے تیل کو پورے جسم پر مل کر دھوپ سیک سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح اگر حکومت کو عوام سے فائدے اٹھانا ہے تو عوام کو مہنگائی کے کولہو میں پیل دیں بلا خوف و خطر۔ پٹرول کی قیمت بڑھا دیں بس اور پھر دیکھیے ہر چیز کی قیمت خود بخود ہی بڑھ جائے گی۔ اور عوام مہنگائی کے ایسے کولہو میں پلِ جائیں گے کہ آپ کو عوام کا زبردست تیل میسر آجائے گا۔ تیل بھی ایسا ہوگا کہ آپ ارب پتی اور کھرب پتی بن جائیں گے۔ ہمارے ملک میں تو عوام کے اس تیل نے عرب سرزمین کے تیل کے کنوئوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دبئی میں اتنی بڑی بڑی بلند و بالا عمارتیں تو عرب کے لوگوں کی بھی نہیں ہوتی۔ جتنی بڑی بڑی بلند و بالا عمارتیں ہمارے سیاستدانوں کی عرب سرزمین پر ہیں۔ اور اس کے علاوہ یورپ اور امریکا میں، اور افریقا میں ہیں۔ میں نام بھی نہ لوں اور لوگ پہچانیں کہ آپ اپنا پتا ہوا بہار کی ہے۔ اور بھئی یہی تیل ہے جس نے گنگو تیلی کو راجا بھوج کے سامنے لاکھڑا کیا اور آج گنگو تیلی کی وجہ سے راجا بھوج مشہور ہے۔ گویا راجا بھوج کی سلطنت آج تیل کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔ ورنہ راجا بھوج کو کون جانتا۔ بعض اوقات تیل جیسی معمولی چیزیں انسان کو اہم بنادیتی ہیں۔ جیسے لوگ کرکٹ کھیل کر راجا بن جاتے ہیں۔ اور راجا بننے کے لیے مذہب کا تڑکہ بھی لگا دیتے ہیں۔ جو سونے پر سہاگے کا کام کردیتا ہے۔ اور اتنے بڑے بڑے دعوے اور وعدے کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ بس اب تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔ یعنی دیکھو کہ ہم کرتے کیا ہیں؟ پانچ لاکھ نوکریاں، رہائشی اسکیمیں، عوام کا طرز زندگی پرآسائش، سستی اشیاء خورو نوش، پرائیویٹ تعلیمی سیکٹر کی جگہ کی گورنمنٹ تعلیمی نظام کا یکساں نظام تعلیم۔ غضب کیا جو تیرے وعدے پہ اعتبار کیا۔
وزیر اعظم کا پہلا اعلان پٹرول پمپس کے ساتھ ٹوائلٹ کی تعمیرکا مژدہ خوش آئند تھا۔ چلیں گورنمنٹ اسکول کے قیام کا اعلان نہ سہی۔ تو ٹوائلٹ بھی کسی پٹرول پمپ کے ساتھ بنتے نظر نہیں آرہے۔ پھر وزیراعظم نے عوام کو یہ مشورہ دیا کہ بھائیوں انڈے بیچو اور بھینسیں پالو۔ کم از کم انڈوں اور بھینسوں کے کاروبار کے لیے وزیراعظم کو ئی لائحہ عمل ہی عوام کو دیتے، کوئی اسکیم دیتے تاکہ عوام اپنی معاشی ضروریات کے لیے، خوشحالی کا نیا سفر شروع کرتے۔ انکروچمنٹ کے نام پر کس طرح عوام کو بیروزگار کیا گیا۔ یہ ایک الگ داستان ہے۔ ٹیکس کی ادائیگی کی مد میں کاروباری افراد کے کاروبار کو زمیں بوس کردیا گیا۔ حکومت کا ایک سمجھدار اور اخلاقی پاسداری کا تقاضا تو یہ تھا کہ پہلے عوام کو اعتماد میں لیا جاتا۔ انکروچمنٹ کے لیے پہلے لوگوں کو مناسب وقت دیا جاتا۔ ان کو متبادل جگہ دی جاتی تاکہ جن افراد کے گھر اس کاروبار سے چل رہے ہیں۔ وہ بیروزگار نہ ہوتے۔ ہزاروں افراد کے گھر کا چولہا جلتا رہتا۔
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
محترم وزیراعظم جس قوم سے آپ ہر موقع پر چندہ لیتے نظر آتے ہیں۔ اسی قوم پر آپ نے مہنگائی اور بیروزگاری کا سیلاب انڈیل دیا۔ گٹر کا پانی اگر ابل رہا ہو تو گٹر کو کھولا جاتا ہے نہ کہ گھر کو ڈھایا جاتا۔ آپ پہلے کرپٹ افراد سے لوٹی ہوئی دولت وصول کرتے۔ ملک اور قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے۔ لیکن آپ نے تو الٹا عوام کو ہی تختہء مشق بنا دیا۔ ملک کی معاشی، تعلیمی، سیاسی اور معاشرتی تنزلی اپنے انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ ایاک نعبد کے بعد مغضوب علیھم بھی آتا ہے۔ ہمیں اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ہمارے خلفائے راشدین عہدے اور منصب کو عزت و تکریم نہیں بلکہ اللہ کی دی ہوئی ذمے داری سمجھتے تھے اور خود کو اللہ کے سامنے روز حشر جوابدہ بھی سمجھتے تھے۔ اسی لیے ہمیشہ منصب سے بچنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن جب ذمے داری کندھوں پر پڑجاتی تو اسے تقویٰ اور جوابدہی کے احساس کے ساتھ ادا کرتے تھے۔ کیا آپ اور ہم اپنے اعمال کے لیے اللہ کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنی حکومتی مدت کے دوران یہ نتیجہ نکال لیا کہ ایک زبردست بیان دیا کہ اسٹیٹس کو ملک کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ گویا جب تک اسٹیٹس کو راہ میں رکاوٹ ہے۔ ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ جناب وزیر اعظم آپ نے تحریک انصاف بنائی ہی اسٹیٹس کو سے عوام کو نجات دلانے کے لیے تھی۔ آپ کی تحریک انصاف تو بنی ہی عوام کو انصاف دلانے کے لیے تھی۔ آپ کی تو انتخابی مہم کا عنوان ہی اس ظالم اسٹیٹس کو سے عوام کو نجات دلانا تھا۔ تو پھر اس اسٹیٹس کو کے خلاف آپ کسی عزم کا اظہار کرتے کسی عملی قدم کا اعلان کرتے۔ عوام کے لیے کسی ریلیف کی بات کرتے۔ اس اسٹیٹس کو کی موجودگی میں ملک میں تبدیلی ناممکن ہے۔ آپ کے اس بیان نے ایک مرتبہ پھر تیل والی کہاوت یاد دلادی۔ کہ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ نہ یہ اسٹیٹس کو کبھی ختم ہوگا نہ ملک میں تبدیلی آسکی گی۔ محترم وزیر اعظم آپ کے اس بیان نے نہ صرف پسے ہوئے عوام کو مایوس کیا ہے بلکہ عوام کے حوصلے کو پست بھی کیا ہے۔ آپ عوام کے لیے امید کی کرن ہیں۔ آپ سے عوام کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ پوری پاکستانی قوم آپ کی طرف امید کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ خدارا عوام کو مایوس نہ کریں۔ اپنے ساتھ ان لوگو ں کو بھی لے کر چلیں جو ایماندار اور ملک کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ ملک کو اس اسٹیٹس کو سے، مہنگائی کے عفریت سے، تعلیمی تنزلی سے، معاشرتی استیصال سے نجات دلانا محترم وزیر اعظم آپ کی اولین ذمے داری ہے۔ ورنہ عہدے اور منصب کو چھوڑ دینا دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا، ز ناریء برگساں نہ ہوتا۔