معاملا الٹ ہوگیا

289

عباس عالم
چلیے آج آپ سے ایک نئی بات کرتے ہیں۔ ابھی پرسوں ایک دوست نے بیرون ملک سے فون کیا اور کافی طویل گفتگو کی۔ گفتگو کے دوران وہ مسلسل مغربی معاشرے میں دانشوروں کے کردار اور ہمارے ہاں دانشوروں کے کردار کا موازنہ کرتے رہے۔ باتیں تو انہوں نے بہت ساری کیں لیکن کم سے کم ایک بات اس قابل ہے کہ اس پہ جم کے سوچا جائے۔۔۔ اور وہ بات ہے دانشورانہ فکر اور عوام کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے کی بات۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے بیس پچیس سال میں مغرب نے اس بات کی خاصی شعوری کوشش کی ہے کہ سنجیدہ ترین دانش ورانہ فکر کو عوام میں مقبول بنایا جائے۔ یوں عوام اور سوچ کے درمیان ٹوٹتے ہوئے روابط کو بحال کیا جائے اور اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور ٹولز کو استعمال کیا جائے۔ اور پھر اس تحریک کے زیر اثر بہت سے لوگوں نے اپنی بات کو بالکل پانی کرکے بتایا بھی ہے۔ اس کے لیے مغرب کے دانشوروں نے خاصی پریکٹس بھی کی ہے اور بات کہنے کے فن کو سیکھا بھی ہے۔ ساتھ ساتھ آڈیو ویژول ایفیکٹس کا سہارا بھی لیا ہے۔ یوں تھوڑی سی محنت مشقت سے ان کی باتیں دانشورانہ ترین ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ ترین بھی ہوگئی ہیں اور نوجوان طبقہ بھی یہ سب چیزیں مزے لے لے کے سن رہا ہے۔ وہ سوال کر رہے تھے کہ کیا ہمارے سنجیدہ لوگوں اور دانشور طبقے میں اپنی باتوں کو مزیدار انداز میں کرنے یا بیان کرنے کی کوئی مہم شروع ہوئی ہے یا ہونے والی ہے۔ ہم سوال پر غور کرتے رہے، سوچتے رہے، سر کھجاتے رہے۔۔ لیکن کوئی موثر جواب نہیں بن پایا۔۔۔ ہم خود بھی چونکہ کمیونیکیشن کے شعبے سے وابستہ رہے ہیں تو اس کا اندازہ تو بخوبی ہے کہ بات کو کس طرح رواں آسان اور مزیدار بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ نہیں معلوم کہ ہمارے دانشور اپنی بات کو آسان اور مزیدار کرنے کے خواہش مند ہیں یا نہیں۔۔ کیونکہ آپ جانیے۔۔
بات جب تک مشکل رہتی ہے، اندازہ نہیں ہونے پاتا کہ اس میں سوچ کا کوئی پہلو ہے بھی کہ نہیں۔ بات آسان ہو جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بات میں دم کتنا ہے۔ تو جناب اب کچھ لوگ جو بات مشکل کرتے ہیں شاید اس لیے کرتے ہوں گے کہ دانشوری کا بھرم رہ جائے۔۔ تو ایسے لوگوں کو تو چلیے جانے دیجیے۔۔ لیکن سچی بات ہے کہ اور تو اور۔۔ فیس بک تک پہ ہم نے کئی مرتبہ ایسی تحریریں پڑھی ہیں جن میں بڑی شاندار اور کام کی باتیں ہوتی ہیں۔۔ لیکن انداز تحریر صاحب اس قدر مشکل اور دشوار کہ نیچے دیے comments میں خود دانشور پناہ مانگتے نظر آتے ہیں۔۔۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا ایسا ہونا ضروری ہے؟ یہ سوال پہلے بھی اہم تھا لیکن اب دس گنا اہم ہوگیا ہے کیونکہ اب تاریخ میں پہلی بار ہم لوگ اپنے عوام سے ڈائیلاگ کرنے کے ٹولز سے لیس ہیں۔ اب بات کو آسان کر نے کی ٹیکنیکس وضع ہوچکی ہیں اور یہ فن (اگر یہ فن ہے) تو اس قدر آگے جاچکا ہے کہ بعض دفعہ بات کہنے والے الگ ہوتے ہیں اور بات کہنے کا طریقہ تلاش کرنے کے لوگ الگ۔ ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے طبقے کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے۔۔ اگر ان کے پاس کہنے کے لیے کوئی بات ہے تو اس کا انداز بھی کچھ ایسا اپنانا چاہیے کہ سامنے والا اس کو سمجھ سکے۔
ہمارا خیال ہے کہ ماضی میں ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں رہی جنہوں نے اپنے انداز کو سامنے موجود حاضرین کے اعتبار سے adapt کیا تھا… امیر خسرو سے لے کے مولانا مودودی تک بے شمار مثالیں ہیں لیکن موجودہ زمانہ اس اعتبار سے ہلکا نظر آتا ہے۔ یہ سمجھنا ہمارے لیے ذرا مشکل ہے کہ ایسا کیوں ہے۔۔ کیا لوگوں کے پاس کہنے کے لیے کوئی خاص بات نہیں ہے اس لیے وہ مشکل الفاظ کا سہارا لے رہے ہیں؟ یا ان کو لکھنے کی تربیت میں اس بات پر زور نہیں دیا گیا کہ بات کو سامنے والے تک پہنچانا بھی آپ ہی کا کام ہے۔ یا وہ بات پہنچانے کے جدید ٹولز سے آگاہ نہیں ہیں؟ یا پھر لوگوں کے فہم ہی سے مایوس ہوچکے ہیں۔ بات کچھ بھی ہو صاحب مسئلہ تو ہے اور شاید یہ مسئلہ زیادہ پرانا بھی نہیں۔ کیونکہ پرانے دور میں دانشوروں کو چھوڑیے بڑے بڑے شاعر یہی خواہش رکھتے تھے کہ ان کے شعر کوئی دانشور سمجھے نہ سمجھے۔ عوام کو سمجھنا چاہیے۔ فقیر کو ان کا کلام گانا چاہیے۔۔۔ اسی کو وہ اپنی اصل کامیابی جانتے اور مانتے تھے۔۔ جبکہ اب معاملہ الٹ ہوگیا ہے۔۔ اب عوام کو ان ٹی وی رائٹرز کے حوالے کردیا گیا ہے جن کی ہم مذمت توکرتے ہیں۔۔۔ لیکن بس مذمت ہی کرتے ہیں اور وہ بھی ذرا مشکل الفاظ میں۔ آگے کیا کہیں؟