چور چور کے شور میں ڈاکے

363

چور چور کے شور میں پاکستانی قوم کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے کی وارداتیں شروع ہو گئیں۔ سب کو چوروں، ٹیکس بچانے والوں اور این آر او مانگنے والوں کے چکر میں ڈال کر حکومت تیزی سے ایسے فیصلے کر رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں ملکی صنعتیں بند، برآمدات ختم اور بیروزگاری و مہنگائی میں زبردست اضافہ ہو جائے گا۔ یہ ساری چیزیں مل کر بدامنی، جرائم اور معاشرتی عدم توازن میں اضافہ کریں گی۔ نئے سال کا پہلا تحفہ پیٹرول، بجلی اور ایل پی جی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرکے دیا گیا ہے۔ ایک دو روز قبل وزیراعظم عمران خان نیازی کہہ رہے تھے کہ 2020ء خوش خبریوں اور اچھی خبروں کا سال ہوگا۔ شاید ان کی مراد حکومت کے لیے اچھی خبریں ہوں… ورنہ عوام کے لیے تو تباہ کن خبریں ہیں۔ یہ بات طے شدہ تھی کہ پیٹرولیم کی قیمتوں سے تقریباً نصف سی این جی کی قیمت رکھی جائے گی۔ لیکن اب سی این جی کے نرخ پیٹرول سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ پندرہ بیس روز سے سی این جی ہی غائب ہے۔ حکومت کے تازہ فیصلے کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 2 روپے 61 پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 2 روپے 25 پیسے اضافہ ہوا ہے۔ اب پیٹرول 118 روپے 60 پیسے کا ملے گا۔ یہ ساٹھ پیسے کی رقم کیا ہے اس کا حساب لینے والا کوئی نہیں آج تک کسی کو پیسے کا حساب نہیں دیا گیا۔ اگر کوئی ایک لیٹر پیٹرول ڈلوائے تو اس سے 120 روپے یا 119 روپے وصول کیے جائیں گے۔ایک روپیہ 40 پیسے یا 40 پیسے کا کوئی حساب نہیں ہوگا۔ پیٹرول و گیس کے نرخوں میں بے ایمانی کو صرف سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے روکا تھا۔ اور 87 روپے پر پہنچنے والی سی این جی کو 43 روپے پر لایا گیا تھا۔ یہ فیصلہ زبردستی نہیں ہوا تھا بلکہ گیس کی قیمت، سپلائی ڈسٹری بیوشن، ڈیلرز کمیشن، لائن لاسسز اور دیگر اخراجات کو ملا کر یہ قیمت رضامندی سے مقرر کی گئی تھی لیکن کچھ ہی عرصے میں حکمرانوں اور سی این جی ڈیلرز کی ملی بھگت نے یہ دن دکھایا کہ اب گیس کی قیمت پیٹرول سے بھی زیادہ ہے اور پیٹرول کی قیمت خود بے قابو ہے۔ حکومت نے 2019ء میں 6 مرتبہ پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کیا جبکہ گیس کی قیمتوں میں 4 مرتبہ اضافہ کیا۔ سب سے زیادہ خوفناک حملے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے ذریعے کیے گئے اور یہ حملے سات مرتبہ کیے گئے۔ کراچی کے ساتھ حکومت پاکستان کا رویہ مسلسل سوتیلا رہا ہے۔ وزیراعظم بھی اس شہر کے ساتھ سیاست میں مصروف ہیں۔ ایک جانب تو شہر کا بلدیاتی نظام اس شہر کے بلدیاتی نظام اور پورے ملک کی معیشت تباہ کرنے والی متحدہ کو دینے کی تجاویز ہیں تو دوسری طرف کے الیکٹرک کو عوام کی کھال اتارنے کے لیے نیپرا نے 4 روپے 90 پیسے اضافہ کرنے کی اجازت دے کر حملہ کیا ہے۔ کے الیکٹرک کو نیپرا نے چار سال کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز وصول کرنے کی اجازت دے دی ہے جبکہ قانون کے مطابق ڈسٹری بیوشن کمپنی کو دو ماہ سے زیادہ کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز وصول کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ کے الیکٹرک اور فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے حوالے سے یہ الگ بات ہے کہ کے الیکٹرک فیول سے کتنی بجلی پیدا کرتی ہے۔ کوئلے سے کتنی اور واپڈا کے نیٹ ورک سے کتنی بجلی لیتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ نیپرا الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی ہے لیکن وہ مسلسل ملی بھگت کرکے ڈسٹری بیوشن کمپنی کے مفادات کی نگہبانی کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ یہ حالات صرف صنعتی اور معاشی تباہی کی طرف نہیں لے جا رہے بلکہ کسی جگہ کوئی چھوٹا سا واقعہ بڑا ہنگامہ کرانے کا سبب بن سکتا ہے۔ صارفین کی جیب سے گیس، بجلی، پیٹرول وغیرہ کی مد میں ان کی ساری آمدنی وصول کر لی جاتی ہے۔ تازہ فیصلے پر کے الیکٹرک نے دلچسپ وضاحت کی ہے۔ ترجمان نے کہا ہے کہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی وصولی کے اختیار کا بوجھ صارفین پر نہیں پڑے گا۔ اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ پھر یہ بوجھ کس پر پڑے گا، کس سے وصول کیے جائیں گے اور نیپرا سے یہ کون پوچھے گا کہ جب ڈسٹری بیوشن کمپنی کو دو ماہ سے زیادہ کا فیول ایڈجسٹمنٹ وصول کرنے کا اختیار نہیں تو نیپرا نے یہ اجازت کیسے دے دی۔ پوچھنے کی ذمے داری جن پر ہے وہ نواز شریف، آصف زرداری اور پیپلز پارٹی، مسلم لیگ کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں اور یہ پارٹیاں احتساب کرنے کے بجائے حکومت کے خلاف الزامات لگانے میں مصروف ہیں نتیجتاً عوام کی جیبوں پر ڈاکا پڑتا رہے گا۔اس کے ساتھ ساتھ دالیں اور آٹا بھی مہنگا کر دیا گیا ہے۔ چینی مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہو گئی ہے۔ ظلم یہ ہے کہ سرکاری بیان اور سرکاری خبروں میں بتایا جا رہا ہے کہ قیمتوں میں استحکام آرہا ہے، روپیہ کی قدر مستحکم ہو رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پیاز، ٹماٹر وغیرہ کی قیمتیں بڑھنے کے بعد واپس نہیں آرہی ہیں ورنہ یہ چیزیں 30 روپے اور 20 روپے کلو میں مل رہی تھیں۔ اب 80 اور 50 سے کم ہی نہیں مل رہیں۔ اسے استحکام کیسے کہہ سکتے ہیں۔