ماورائے عدالت قتل پر سزا

341

سوڈان کی ایک عدالت نے قومی انٹیلی جینس ایجنسی سروس کے 27 اہلکاروں کو ایک استاد کا ماورائے عدالت قتل ثابت ہونے پر پھانسی کی سزا سنادی ہے۔ اسی مقدمے میں مزید 13 ملزمان کو قید کی سزا بھی سنائی گئی ہے جبکہ چار کو ثبوت نہ ملنے کی بناء پر بری کردیا گیا ہے۔ ان اہلکاروں پر گزشتہ فروری میں احتجاجی مظاہروں کے دوران درجنوں افراد کو بہیمانہ تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دینے کا الزام تھا۔ مرنے والے ان افراد میں ایک استاد بھی شامل تھا جس کے ماورائے عدالت کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ سوڈان کی عدالت میں ماورائے عدالت قتل کے مقدمے کا یہ فیصلہ بلاشبہ انصاف کی نظیر ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی ایسے ہی حالات سے دوچار ہے جہاں پر ہزاروں افراد حراستی مراکز میںکسی مقدمے یا فرد جرم عاید کیے بغیر برسوں سے قید ہیں۔ ان حراستی مراکز سے جب چاہیں اور جسے چاہیں دہشت گرد قرار دے کر قتل کردیا جاتا ہے۔ ایسے قاتلوں کی ایک مثال راؤ انوار ہے مگر پاکستان میں انصاف کہیں پر سورہا ہے اور راؤ انوار جیسے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دینے کے بجائے وی وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں پیشی کے موقع پر راؤ انوار کی گاڑی کو اس مقام تک آنے کی اجازت دی جاتی ہے، جہاں تک چیف جسٹس کی گاڑی بھی نہیں آتی۔ علامتی سزا دینے کے بعد اس کے اپنے ہی گھر کو سب جیل بھی قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں راؤ انوار واحد مثال نہیں ہے۔ سانحہ ساہیوال کو زیادہ دن نہیں گزرے۔ تمام تر شواہد ہونے کے باوجود اس سانحے کے تمام ہی ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا۔ اسی طرح کراچی میں کلفٹن میں واقع بے نظیر بھٹو پارک میں رینجرز کے ہاتھوں ایک نوجوان کے قتل کی وڈیو آنے کے باوجود اس واقعے کے ملزمان کو بھی چھوڑ دیا گیا۔ ملک میں صرف پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں ہی کو ماورائے عدالت قتل کی کھلی چھوٹ نہیں ہے بلکہ جو بھی بااثر ہے، وہ اس سہولت سے مستفید ہوسکتا ہے۔ شاہ رخ جتوئی، مصطفی کانجو، ریمنڈ ڈیوس کے نام اس سلسلے کی بہترین مثال ہیں۔ اگر پاکستان میں بھی اس سوڈان کی عدالت کی طرح کا ایک بھی فیصلہ آجائے اور اس پر عملدرآمد بھی ہوجائے تو نہ صرف ماورائے عدالت قتل کے واقعات ختم ہوجائیں گے بلکہ قانون کی عملداری بھی قائم ہوگی۔