دوستوں اور دشمنوں میں تمیز کا یہی وقت ہے

371

افغانستان، پاکستان اور بھارت آج کل جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ کسی وقت تو صرف ایک افغانستان ہی ایسا تھا جو قابلِ رحم حالت میں گرفتار تھا۔ پھر پاکستان اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا۔ پڑوسی ملک بھارت کسی حد تک حالت امن میں نظر آ رہا تھا لیکن اچانک وہ جس بری طرح بد امنی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید اس کا حال افغانستان اور پاکستان سے بھی کہیں عبرتناک صورت اختیار کر لے۔ افغانستان کے حالات تو کئی دھائیوں ہی سے بہت خراب چل رہے تھے اور پاکستان بھی حالت امن میں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان نے اپنے اندرونی حالات پر بہت حد تک قابو پالیا تھا جس کی سب سے بڑی دلیل پاکستان میں ’’ون ڈے انٹر نیشنل‘‘ کر کٹ کا پلٹ کر آنا اور اب ’’ٹیسٹ کرکٹ‘‘ کے میچوں کا انعقاد ہے۔ پاکستان کا یہ امن شاید دنیا کو پسند نہیں آرہا جس کی وجہ سے نہ صرف دنیا پاکستان کے حالات کو ماضی کے حالات کی جانب لیجانے کی کوشش کر رہی ہے بلکہ اس خطے اور بھارت میں بھی امن و امان کو ابتر کرنے کی بین الاقوامی سازش تیار کی جارہی ہے۔ ایسا سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اور کیوں کیا جارہا ہے، یہ بہت سنجیدہ اور غور طلب معاملہ ہے۔
ہم چند ماہ پیچھے کی جانب مڑ کر دیکھیں تو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور بھارت کے وزیر اعظم مودی امریکا کے دورے پر گئے ہوئے تھے۔ اس سے اور چند ماہ قبل امریکا اور طالبان مذاکرات چل رہے تھے اور دو طرفہ افغان امن کے بڑے بڑے دعوے بھی سامنے آ رہے تھے۔ افغان امن کے لیے پاکستان کا ایک خاص کردار ہمیشہ سے رہا ہے اور اب بھی امریکا کی خواہش ہے کہ پاکستان طالبان سے مذاکرات کے سلسلے میں امریکا کی مدد کرے۔ اِدھر پاکستان اور بھارت کے بیچ جو سب سے سلگتا مسئلہ رہا ہے وہ کشمیر کا مسئلہ رہا ہے چنانچہ امریکی صدر سے ملاقات میں پاکستان اور بھارت دونوں نے کشمیر کے سلسلے میں امریکی صدر سے اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس پر امریکا کی جانب سے ثالثی کی پیشکش بھی کی گئی۔ پاکستان نے تو نیم رضا مندی ظاہر کی لیکن مودی سرکار نے کسی بھی قسم کی ثالثی قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس دورے کے بعد امن و امان کے لحاظ سے بھارت کے حالات ابتر سے ابتر ہونا شروع ہوئے۔ بھارت نے کشمیر کے مسئلے کو اپنے تئیں حل کرنے اور اس پر اپنا آئینی و قانونی حق جتانے میں جس غلط پالیسی کو اختیار کیا گیا وہ تو مودی سرکار کے منہ میں چھپکلی بن ہی گئی تھی جس کو اب نہ اگلے بن رہی ہے اور نہ نگلے لیکن حماقت در حماقت کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ پالیسی نے اس وقت پورے ہندوستان میں ایسی آگ بھڑکائی ہوئی ہے جو بجھائے بجھ کر نہیں دے رہی ہے۔
پاکستان جو اس وقت بھارت اور افغانستان سے کسی حد تک بہتر حالت میں نظر آ رہا تھا وہاں بے شک خونریزی کی وہ صورت حال تو نہیں ہے جو چند برس پہلے تھی لیکن یہاں جس قسم کے عدالتی، آئینی اور قانونی حالات پیدا ہوگئے ہیں یا کیے جارہے ہیں وہ کسی بھی وقت اتنی خوفناک صورت اختیار کر سکتے ہیں کہ ریاست کی بنیادیں بھی ہل جانے کا خطرہ ہے۔ گویا خطے کے تین بڑے ممالک، افغانستان، پاکستان اور بھارت، اس وقت ایسی صورت حال کا شکار ہیں کہ (ہزار بار خدا نخواستہ) خطے کے جغرافیائی حالات بھی بے یقینی سے ہو کر رہ گئے ہیں۔ ماضی قریب میں پاکستان کے اندر خود کش حملوں، بم دھماکوں یا کسی بھی تخریب کاری کی صورت میں شاید اتنی تباہی و بربادی نہیں پھیلی ہو گی جو اس وقت آئینی، قانونی اور عدالتی فیصلوں کی صورت میں پھیلتی نظر آ رہی ہے۔ عدالتوں کے تواتر کے ساتھ جس قسم کے فیصلے سامنے آ رہے ہیں وہ ملک کے لیے کوئی نیک شگون نہیں اس لیے کہ اگر ان حالات کا تسلسل بر قرار رہا تو پورا سسٹم ایک مرتبہ پھر سے لپٹ جائے گا جو پاکستان کی بنیادیں ہلانے کے مترادف ہوگا ۔ میں جس جانب ہر قاری اور اہل فہم و شعور کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تیزی سے بگڑتی ہوئی اس صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ سب افغان امن مذاکرات کی ناکامی اور پاکستانی و بھارتی وزرائے اعظموں کے دورہ امریکا کے فوراً بعد سے سامنے آنا شروع ہوئی ہے۔
کشمیر کا تنازع کھڑا کرنا، بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بھر پور صف بندی، افغانستان میں طالبان کی دوبارہ سرگرمیاں اور پاکستان میں عدلیہ کی جانب سے مسلسل یہ بیان آنا کہ ’’ہواؤں کا رخ بدل چکا ہے‘‘۔ اور پھر اس کے فوراً بعد ایسے ایسے فیصلے آنا جس کے متعلق 72 سال میں بھی کسی نے تصور نہ کیا ہو، یہ سب معاملات خود بخود یا بہت اچانک نہیں ہو گئے۔ پاکستان بے شک اپنے آپ کو ’’سونے کی چڑیا‘‘ نہ سمجھتا ہو، اسی طرح بھارت اور افغانستان اپنے ’’پارس‘‘ ہونے سے لا علم ہوں لیکن دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان واقعی ایک ’’سونے کی چڑیا‘‘ اور افغانستان و بھارت ’’پارس‘‘ ہی ہیں لیکن بد قسمتی سے اپنی اپنی قدر و قیمت سے غافل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بہت سارے ممالک اس خطے میں بہت گہری دلچسپی رکھتے ہیں ورنہ ان خطوں میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔ تیس پینتیس سال قبل روس نے بھی ان خطوں کی حقیقت جان لینے کے بعد اس جانب کا رخ کرنے کا ارادہ کیا تھا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ جس وقت پاکستان، افغان طالبان اور بھارت امریکا کے طواف کرنے میں مصروف تھے اسی دوران امریکا و چین بھی تیزی کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب آ رہے تھے۔ ان کی یہ قربت کسی بھی لحاظ سے بے معنیٰ تو نہیں رہی ہوگی۔ یہی وہ نقطہ ہے جس کی جانب میں ارباب اختیار و اقتدار کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ اگر اس قربت پر غور کیا جائے تو پھر اس بات کو بھی کسی لحاظ سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ امریکا کی طرح چین بھی کبھی اس بات کو گوارہ نہیں کرسکتا کہ اس خطے میں پاکستان اور بھارت کوئی بہت مضبوط ایٹمی پاور کے روپ میں ابھر کر سامنے آئیں۔
یہ نکتہ بھی ہر وقت نگاہوں میں رکھنا چاہیے کہ ہر طاقتور ملک دوسرے ملک کو اپنے سے کمزور تو دیکھنا چاہتا ہے لیکن وہ ایٹم کی تباہ کاریوں کے خوف سے جنگ چھیڑنا بھی نہیں چاہتا۔ کسی بھی ملک کو کمزور کرنے کا دوسرا اور جنگ سے بھی کہیں زیادہ موثر طریقہ یہی رہ جاتا ہے کہ دشمن ملک کو اندرونی خلفشار میں اس بری طرح مبتلا کر دیا جائے کہ وہ اپنی اہمیت اور طاقت کھو بیٹھے۔ یہی کچھ افغانستان، پاکستان اور بھارت میں ہو رہا ہے اور تینوں ممالک کو تین مختلف انداز میں کھوکھلا کرنے کی سازشیں عروج پر نظر آ رہی ہیں۔ افغانستان تو پہلے گرفتارِ بلا و آزمائش تھا، بھارت کو بھی اب قریب قریب اس جیسی ہی آگ میں جھونکا جاچکا ہے۔ اِدھر پاکستان کو بغیر خون خرابہ ایسے عدالتی، آئینی و قانونی بحران میں مبتلا کیا جارہا ہے جس سے نکلنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ توجہ دلانے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچاننے کی کوشش کرے۔ جن جن کو وہ اپنا حامی و دوست سمجھ رہا ہے وہ سب اس کے چھپے دشمن ہیں جس کی سب سی بڑی دلیل پاکستان کو دورہ ملائشیا سے باز رکھنا ہے۔ اگر پاکستان جلد اپنی خارجہ پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں لایا تو بین الاقوامی سطح پر بچھائے ہوئے جال میں پاکستان اس بری طرح پھنس جائے گا کہ جال کے تانے بانوں کو کاٹ کر اس سے باہر آنا ناممکن ہو جائے گا لہٰذا ضروی ہے کہ اپنوں اور پرایوں، دوستوں اور دشمنوں کو پہچانا جائے تاکہ ملک کو نہ صرف بحرانوں سے نکالا جا سکے بلکہ اس کو دنیا میں ایک باوقار ملک بنایا جا سکے۔