اسلام آباد( نمائندہ جسارت) چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے اپنی سبکدوشی سے قبل خطاب میں کہا ہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کیخلاف خصوصی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد میرے اور پوری عدلیہ کیخلاف گھناؤنی مہم شروع کردی گئی ہے لیکن سچ ہمیشہ غالب ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان (آصف سعید کھوسہ) کی جانب سے اس کیس پر اثر انداز ہونے سے متعلق بات کی جو بے بنیاد اور تضحیک آمیز ہے۔واضح رہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران بھی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ اس درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل ججز کے خلاف تضحیک آمیز مہم چلائی گئی ہے۔جمعہ کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اعزاز میں عدالت عظمیٰ میں فل کورٹ ریفرنس منعقد کیا گیا جو جو ان کی ریٹائرمنٹ کے سلسلے میں تھا۔اپنی سبکدوشی سے قبل آصف سعید کھوسہ نے بطور چیف جسٹس، مری میں آمنہ بی بی پر فائرنگ سے متعلق کیس کی سماعت کی اور معاملے کو نمٹادیا۔اس سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ میرا عدالتی کیریئر کا آخری مقدمہ ہے، سب کے لیے میری نیک خواہشات ہیں۔عدالت عظمیٰ کے کمرہ نمبر ایک میں چیف جسٹس کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس میں عدالت عظمیٰ کے ججز، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کے صدر شریک ہوئے تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چھٹی پر ہونے کے باعث اس فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہ ہوسکے۔ اس کے علاوہ اٹارنی جنرل فار پاکستان انور منصور خان بھی بیرون ملک ہونے باعث اس ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے اور ان کی جگہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نمائندگی کی۔فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ انہوں نے اللہ گواہ ہے میں نے سچائی کے ساتھ بطور جج ہمیشہ اپنے حلف کی پاسداری کی،قانونی تقاضوں سمیت بغیر خوف اور غیرجانبداری سے فیصلے کیے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیشہ وہی کیا جسے میں درست سمجھتا تھا اور اسے کرنے کے قابل تھا، میرے لیے یہ اہم نہیں کہ دوسروں کا ردعمل یا نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ججز کا دل شیر کی طرح اور اعصاب فولاد کی طرح ہونے چاہییں،کبھی فیصلہ دینے میں تاخیر نہیں کی، ان سب سے معذرت خواہ ہوں جنہیں میرے فیصلوں کی وجہ سے ناچاہتے ہوئے تکلیف ہوئی۔ ریفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا 100 فیصد دیا، ڈیوٹی کی ہمت سے زیادہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی، کبھی آواز نہیں اٹھائی بلکہ اپنے قلم کے ذریعے بات کی اور کبھی بھی فیصلے کو غیرموزوں طور پر موخر نہیں کیا اور اپنی زندگی کے بہترین برسوں کو عوامی خدمت میں وقف کرنے کے بعد آج میرا ضمیر مطمئن ہے۔چیف جسٹس نے بتایا کہ اپنے 22 سالہ کیریئر کے دوران مختلف قانونی معاملات کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جبکہ بطور چیف جسٹس 11 ماہ (مجموعی طور پر 337 دن) ذمے داری نبھائی تاہم اگر اس میں ہفتہ وار تعطیل اور دیگر چھٹیوں کو نکال دیں تو 235 دن کام کے لیے ملے۔انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں عدالتی شعبے میں اصلاحات کے لیے اہم اقدامات کیے،اپنے عہدے کے حلف کی پاسداری اور قانون کے مطابق بلاخوف یا حمایت کے انصاف فراہم کرنے کی کوشش کی۔اپنے خطاب میں چیف جسٹس نے فہمیدہ ریاض کی لکھی گئی نظم ‘فیض کہتے’ ہیں کا تذکرہ بھی کیا اور اشعار پڑھے کہ کچھ لوگ تمہیں سمجھائیں گے وہ تم کو خوف دلائیں گے۔انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک ایک جج کو بے خوف و خطر ہونا چاہیے۔فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ میں اپنی قانونی رائے کی درستی کا کوئی دعویٰ نہیں کرتا لیکن صرف امید کرتا ہوں کہ تاریخ مجھے اچھے لفظوں میں یاد رکھے گی اور میری کی گئی مخلصانہ کوششوں کو سراہے گی۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عدلیہ میں اصلاحات لانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی فہرست بتائی جس میں ای کورٹس کا قیام، آن لائن عدالت عظمیٰ ڈیٹابیس، عدالت عظمیٰ ویب سائٹ کی تشکیل نو سمیت موبائل ایپلی کیشن کا آغاز شامل ہے۔ساتھ ہی انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ زیر التوا فوجداری مقدمات کا بیک لاگ ختم کیا گیا اور التوا مانگنے کی کوشش کی ‘موثر طریقے سے حوصلہ شکنی’ کی گئی۔علاوہ ازیں نامزد چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اپنے پیش رو کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کو بطور جج بہترین کارکردگی کا حامل اور غیرمعمولی ذہانت، بے مثال دیانتداری اور زبردست علمیت شخصیت قرار دیا۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ قانون کی بالادستی، آئین کا تحفظ اور عدلیہ کی آزادی یہ سب سے اہم کام ہیں جس کا عدالت سے مستقل واسطہ ہے۔ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کے اعزاز میں ان کی مدت ملازمت کے آخری روز عشایے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس