ہانگ کانگ، فرانس سمیت جدید احتجاجی تحاریک پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ ان تحاریک کو منظم کرنے والا کوئی مرکزی لیڈر موجود نہیں ہے۔ جدید دور کے مواصلاتی آلات کے ذریعے نادیدہ قوت احتجاجی ہجوم کو نہ صرف منظم کرتی ہے بلکہ ان احتجاجی مظاہرین کو ریموٹ کنٹرول سے پرتشدد ہجوم میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ حکومتوں کی تبدیلی کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی طرح ان تبدیلیوں کے لیے 1986 میں بین الاقوامی سازش کاروں نے فلپائن میں ایک کامیاب تجربہ کیا اور وہ تھا ریموٹ کنٹرولڈ عوامی احتجاج کے ذریعے ہدف بنائی گئی حکومت کی بے دخلی اور مطلوبہ افراد کی حکومت میں تعیناتی۔ ان تجربات کو بجا طور پر ایک ہار میں پروئے گئے موتی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس طرح کوئی بھی حکومت جب کوئی فوج آپریشن کرتی ہے تو اس کو ایک نام دیتی ہے، اسی طرح ان حکومتوں کی تبدیلی کے آپریشن کو مختلف نام دیے گئے۔ یہ سارے نام یا تو کسی رنگ کے نام پر تھے یا پھول کے نام پر۔ اسی لیے دنیا بھر میں ان آپریشنز کو رنگین انقلابات کہا جاتا ہے۔
ان تمام مہمات جن کو بین الاقوامی میڈیا عوامی تحریک کا نام دیتا ہے، کے بارے میں یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ تشدد سے پاک تحریکیں تھیں۔ حالانکہ زمینی حقائق اس کے یکسر برعکس ہیں۔ اس کا آغاز فلپائن سے 1986 میں ہوا جس کو عوامی قوت انقلاب کا نام دیا گیا مگر اس کو عرف عام میں پیلا انقلاب کہا جاتا ہے۔ تاہم رنگین انقلاب کی اس سیریز کا باقاعدہ آغاز 2000 سے یوگوسلاویہ سے ہوا۔ اس کے بعد جارجیا، یوکرین، کرغیزستان، لبنان، کویت، عراق، ایران، تیونس، مصر، پاکستان، چیکو سلاوکیہ، آذربائیجان، ازبکستان، برما، چین، بیلاروس، آرمینیا، مالدووا، منگولیا اور روس شامل ہیں۔ حال میں رنگین انقلاب کا کھیل فرانس اور ہانگ کانگ میں کھیلا جارہا ہے۔
ان تمام تحریکات میں کھیل کے میدان کے علاوہ ہر چیز مشترک ہے۔ کھلاڑیوں کا انتخاب، کھیل کے قواعد، کھلاڑیوں کا یونیفارم، نعرے، نام نہاد انقلاب کا اسکرپٹ، بین الاقوامی میڈیا کا کردار اور سب سے بڑھ کر فنڈنگ کا طریقہ کار۔ ان تمام تحریکات کے مشترک نکات جن کو ڈھونڈنے کے لیے کسی خاص دقت کی ضرورت نہیں ہے وہ یہ ہیں۔ پہلی بات یہ کہ ان کا آغاز پرانی سیاسی پارٹیوں کے بجائے نئے کھلاڑیوں کو میدان میں اتار کر کیا جاتا ہے۔ عموماً ان کا تعلق طلبہ یونین یا لیبر یونین سے ہوتا ہے۔ بعض اوقات پس منظر میں اور بعض اوقات پیش منظر میں مختلف این جی اوز انتہائی متحرک ہوتی ہیں جنہیں سول سوسائٹی کا نام دیا جاتا ہے۔ اس تحریک کے رہنما پہلے ہی دن سے اس تحریک کے لیے کوئی رنگ یا پھول چن لیتے ہیں جس کو پوری تحریک کے دوران علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
اس تحریک کے آغاز سے قبل مقتدر شخص کے خلاف ذرائع ابلاغ میں ایک زبردست مہم چلائی جاتی ہے اور اس کے تمام کالے کرتوت حیرت انگیز طور پر روز ایک نئی انکشافاتی رپورٹ کی صورت میں ملکی و بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہوچکے ہوتے ہیں۔ تحریک کے آغاز سے قبل ہی ملک میں مہنگائی، بدامنی اور اسٹریٹ کرائم کا طوفان آجاتا ہے اور عوام اس مقتدر شخص سے ہر حال میں چھٹکارے کو تمام مسائل کا حل سمجھنے لگتے ہیں۔ تحریک کا آغاز ابتدائی طور پر پرامن مظاہروں سے شروع ہوتا ہے اور اختتام خوں ریزی پر۔ ان انقلابیوں پر عالمی ذرائع ابلاغ خصوصی طور پر مہربان رہتے ہیں اور ان کے ہر بلیٹن میں اس کے بارے میں خصوصی رپورٹس شامل ہوتی ہیں۔
رنگین انقلابات کے مختصر تعارف میں یہ واضح ہوگیا کہ احتجاج طلبہ تنظیموں یا مزدور تنظیموں کے ذریعے شروع کیا جاتا ہے۔ اس امر کا ہم پہلے ہی جائزہ لے چکے ہیں کہ مزور تنظیموں کے مردہ جسم میں جان ڈالنا ناممکن ہے اس لیے اس مقصد کے لیے یونیورسٹیوں کے طلبہ کو چنا گیا اور اب یونیورسٹیوں اور کالج کی سطح پر طلبہ یونینوں کی بحالی کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں رنگین انقلاب کیوں؟ رنگین انقلاب تو حکومت کی تبدیلی کے لیے لایا جاتا ہے اور پاکستان میں تو عالمی سازش کاروں کی منتخب کٹھ پتلی حکومت پہلے ہی موجود ہے بلکہ اب تو خزانہ جیسا اہم ادارہ براہ راست ان کے کنٹرول میں ہے۔
2020 عالمی سطح پر انتہائی اہم سال ہے۔ صہیونی 2020 میں ہی سرخ بچھیا کی قربانی دینے کا منصوبہ رکھتے ہیں جس کے بعد ان کے تیسرے معبد (ہیکل سلیمانی المعروف Third Temple) کی تعمیرات کا باقاعدہ آغاز کردیا جائے گا۔ تیسرے معبد کی تعمیرکے لیے بنیادی کام کیا جاچکا ہے، بس اس کا آغاز ہونا ہے۔ دنیا پر عالمگیر شیطانی قبضے کے لیے تمام ہی اسباب تیار ہیں تاہم اس کے آغاز کے لیے تیسرے معبد کی تعمیر ضروری ہے۔ ہیکل سلیمانی کی آخری تعمیر کے لیے مسجد اقصیٰ کو شہید کیا جائے گا اور اسی جگہ اس کی تعمیر کی جائے گی۔
(باقی صفحہ 7 کالم 1)
مسجد اقصیٰ کے شہید ہونے کے ممکنہ ردعمل کو قابو کرنے کے لیے دنیا بھر میں افراتفری پھیلانا ضروری ہے۔ غور کریں کہ پوری مسلم دنیا اس وقت شدید انتشار کا شکار ہے۔ پاکستان میں افراتفری کے لیے اسٹیج تیار ہے۔ سقوط کشمیر پر عوام میں غصہ بھرا ہوا ہے، روز مہنگائی کا ایک نیا بم پھاڑا جاتا ہے، ملک میں بلدیات سے لے کر وفاقی حکومت تک کسی بھی سطح پر حکومت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے، سانحہ ساہیوال جیسے واقعات کے مجرموں کو آزاد کرنے کا معاشرے میں ردعمل ہے، طبقاتی منافرت پھیلائی جاچکی ہے، ایسے میں بس آگ لگانا باقی ہے جس کے لیے طلبہ یونینوں کا کھیل جاری ہے۔
بھارت، بنگلا دیش، ایران، پورا عرب، مصر ہر جگہ انتہائی افراتفری کا ماحول ہے، ترکی کو قابو کرنے کا منصوبہ تیار ہے، صرف انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسے ممالک باقی ہیں جن کا شور شرابا نقارخانے میں سنائی ہی نہیں دے گا۔ عیسائی دنیا کو پہلے ہی قابو کیا جاچکا ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے بلیو پرنٹ کو دوبارہ سے دیکھیں۔ 2025 میں نیو ورلڈ آرڈر کا رسمی اعلان، 2030 میں نیو ورلڈ آرڈر کے منصوبے پر باقاعدہ کام شروع اور 2050 میں نیو ورلڈ آرڈر کا مکمل نفاذ۔اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔