حصہ سوم۔
پاکستان میں افراتفری پھیلانے کے سارے ہی اسباب موجود ہیں بس ایک قوت کی ضرورت ہے جو کسی بشریٰ زیدی کیس کی طرح اچانک سامنے آجائے اور احتجاجی مظاہرین کو منظم کرکے آناً فاناً پورے ملک کو اپنے قبضے میں لے لے۔ افراتفری پھیلانے کے اسباب میں جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی ہے وہ 2020 میں پوری ہوجائے گی۔ اس وقت پاکستان میں شرح سود 13.25 فی صد ہے جو پوری دنیا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ عمومی طور پردنیا بھر میں شرح سود چار تا چھ فی صد ہوتی ہے۔ اتنی بھاری شرح سود کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں سود سے کمانے والوں نے پاکستان کا رخ کیا اور اپنی سرمایہ کاری حکومت کو treasury bills کے ذریعے قرض فراہم کرنے میں لگائی۔ سرمایہ کاری کے نام پر آنے والے ان اربوں ڈالروں کو حکومت نے برآمدات کے فروغ یا کسی اور پروجیکٹ میں نہیں لگایا کہ اس سے کچھ آمدنی بھی ہوسکتی۔ اس بھاری رقم کو گھر بیٹھ کر اللے تللے میں خرچ کیا۔ اب 2020 میں جب اس قرض پر بھاری سود دینا ہوگا تو عمرانی سرکار کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہوگی۔ جب عالمی کھلاڑی پاکستان میں افراتفری پھیلانا چاہیں گے تو یہ مشکوک سرمایہ کار اپنی رقوم مع سود لے کر پاکستان سے باہر نکل جائیں گے۔ ایسے میں جب سرکار کے پاس سود کی ادائیگی کے لیے رقم موجود نہیں ہے تو قرض کی رقم کہاں سے واپس کی جائے گی۔ اس صورت میں پھر معاشی صورتحال کا نام لے کر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی زبردست بے قدری سامنے آئے گی اور یوں مہنگائی کا ایک اور سونامی جو پچھلے طوفان سے زیادہ خطرناک ہوگا پاکستانی قوم کو غرق کردے گا۔
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے منصوبے میں پاکستان نے مزاحمت کے بجائے پہلے ہی دن سے بھارت کے شراکت دار کا کردار ادا کیا اور عملی طور پر بھارت کو اس ناپاک منصوبے کو کامیاب بنانے کے ہر طرح کی مدد فراہم کی۔ زبانی کلامی طور پر تو بھارت کو بہت آنکھیں دکھائی گئیں مگر عملی طور پر خاموشی بلکہ مدد کی پالیسی اپنائی گئی۔ پاکستان کی بھارت کے لیے امدادی پالیسی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب 5 اگست کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا تو اس کے فوری بعد پاکستان نے اقوام متحدہ کے ہونے والے سالانہ اجلاس عام میں جس میں سارے ممالک کے سربراہان موجود ہوتے ہیں، بھارت کے خلاف کوئی قرارداد ہی پیش نہیں کی۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں بھی کوئی قرارداد نہیں لائی گئی۔ اگر پاکستان بھارت کی فضائی کمپنیوں پر پاکستانی فضائی حدود سے گزرنے پر پابندی عاید کردیتا تو اس کی فضائی صنعت زمیں بوس ہوجاتی کہ اس کی فضائی کمپنیوں کو مغرب کی طرف جانے کے لیے پاکستان پر سے ہی گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے جواب میں اگر بھارت یہی اقدام کرتا تو پاکستان پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان کی کسی فضائی کمپنی کا آپریشن مشرق کی طرف ہے ہی نہیں۔ افغانستان کے لیے بھارت کو فراہم کی گئی تجارتی راہداری کی سہولت تو کیا واپس لی جاتی، پاکستان نے عملی طور پر خود بھارت سے تجارت بند نہیں کی۔ پاکستان کا پہاڑی نمک بھارت تقریباً مفت لیتا ہے اور کئی ارب ڈالر میں برآمد کردیتا ہے۔ پاکستان نے پہاڑی نمک کی برآمد پر ہی پابندی عاید نہیں کی۔ کنٹرول لائن پر روز ہی گولہ باری ہوتی ہے جس میں پاکستانی علاقے میں بسنے والے دیہاتی اور ان کے بیوی بچے مارے جاتے ہیں، ہر کچھ روز کے بعد پاکستانی فوج کے جوان اور افسر بھی جان سے جاتے ہیں۔ ایسی لاشیں روز اٹھانے کے باوجود پاکستان کنٹرول لائن سے متصل کرتارپور کی سرحد یکطرفہ کھول کر بھارتیوں کے ساتھ مل کر بھنگڑے ڈال رہا تھا۔
کشمیر پر کھیلے جانے والے شرمناک کھیل کی جزیات اب مزید سامنے آرہی ہیں۔ پاکستان نے اپنے پاس موجود آزاد کشمیر میں سے آزاد کا لفظ حذف کرنے کا عمل شروع کردیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان بھی خاموشی کے ساتھ آزاد کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کررہا ہے۔ یعنی عملی طور پر اس منصوبے پر عمل کیا جارہا ہے کہ کشمیر کا جو علاقہ بھارت کے پاس تھا، اب وہ بھارتی ریاست میں ضم ہوچکا ہے اور جو علاقے پاکستان کے پاس ہیں، انہیں پاکستان میں شامل کیا جارہا ہے۔
اب صورتحال پر دوبارہ سے غور کرتے ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی کا طوفان عوام کو ڈبوچکا ہے، حکومت میں شامل آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے نمائندوں نے مہنگائی کے ایک نئے سونامی کو تیار کر رکھا ہے جو 2020 میں بچے کھچے پاکستان کو بھی تباہ کردے گا۔ طبقات پیدا بھی کیے جارہے ہیں اور ان کے درمیان منافرت بھی۔ لاہور میں ڈاکٹروں اور وکیلوں کے درمیان ہونے والے حالیہ معاملات سے صورتحال کو سمجھا جاسکتا ہے۔
عوام اور مقتدر قوتیں ایک دوسرے کے مخالف آچکی ہیں۔ سقوط کشمیر نہ صرف ہوچکا ہے بلکہ اس میں پاکستان کی مقتدر قوتوں نے مددگار اور شراکت دار کا مذموم کردار ادا کیا۔ عوام میں یہ تصور راسخ ہوچکا ہے کہ جو پاکستان کا ساتھ دیتا ہے، اسے پاکستان وقت آنے پر بے یار ومددگار چھوڑ دیتا ہے۔ اس سلسلے میں مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والوں کی مثال پیش کی جاتی ہے، جنہیں بنگلادیش میں پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں پھانسی دینے کا عمل جاری ہے مگر پاکستان کی طرف سے مسلسل مجرمانہ خاموشی ہے۔ افغانستان، مقبوضہ کشمیر اور خالصتان تحریک میں بھی یہی کہانی دہرائی گئی۔ اس سے پاکستان حامی قوتوں میں مایوسی پھیل گئی ہے اور اب وہ مزید اپنی جانیں دینے کو تیار نہیں ہیں۔
اس پس منظر کا مطلب یہ ہے کہ آگ لگانے کا سارا ہی سامان موجود ہے بس ایک چنگاری لگانے کی دیر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2020 پاکستان کے لیے مشکل ترین سال ثابت ہوگا۔ اس پوری صورتحال کو جاننے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس چنگاری کے لیے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینیں ہی کیوں۔ اس سوال پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور دوسروں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔