پاکستان میں ہر طرف بے یقینی کی لہر ہے۔ ہر شخص یہی پوچھ رہا ہے کہ کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے اسلام آباد میں دیے جانے والے دھرنے کے بعد پاکستان میں صورتحال روز بروز مزید بے یقینی کا شکار ہورہی ہے۔ ملک کے بنیادی اور اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے روز ایک نیا نان ایشو پیدا کیا جاتا ہے اور پوری پاکستانی قوم ایک نئی سرخ بتی کے تعاقب میں چل پڑتی ہے۔ ایسے میں ملک میں اچانک سے ایک نئی آواز گونجی۔ جب لال لال لہرائے گا۔ تب ہوش ٹھکانے آئے گا کے اچانک بلند ہونے والے نعروں نے پاکستان میں ایک ارتعاش پیدا کردیا ہے۔ 2019 کے آخر میں لاہور میں ہونے والے جشن فیض کے آخر میں نوجوانوں کے ایک گروپ نے نعروں کے انداز میں انقلابی گیت گایا۔ مذکورہ گیت میں اکثر اشعار بھارتی شاعر بسمل فیض آبادی کے تھے جس میں سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے، دیکھنا ہے زور بازوئے قاتل میں، آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار آئیں وہ شوق شہادت جن کے دل میں ہے، قابل ذکر ہیں۔ دف اور طبلے کی تھاپ پر نعروں کے انداز میں یہ اشعار پڑھنے اور پیش کرنے کا انداز دل آویز تھا۔ دیکھنے ہی سے لگتا تھا کہ پرفارم کرنے سے قبل اس کی خاصی پریکٹس کی گئی ہے۔ اس کے فوری بعد ہی 29 نومبر کو پورے ملک میں طلبہ یونینوں کی بحالی کے حوالے سے دن منایا گیا۔
پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینوں پر پابندی جنرل ضیاء الحق نے لگائی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے رخصت ہونے کے بعد بھی کسی جمہوری حکومت نے طلبہ یونینوں پر پابندی کے خاتمے کے بارے میںکوئی بھی اقدام کرنے سے گریز کیا۔ آصف زرداری جب پرویز مشرف کے خاتمے کے بعد قصر صدارت میں داخل ہوئے تو پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی میں طلبہ یونینوں کو بحال کرنے کا اعلان کیا۔ اس بارے میں قومی اسمبلی سے بل منظوربھی کیا گیا مگر اسے نافذ نہیں کیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق کے بعد بننے والی جمہوری حکومتیں بھی عوامی آراء سے تشکیل نہیں پائیں اور انہیں بھی سلیکٹڈ ہی کہا جاسکتا ہے۔ سلیکٹرز ہمیشہ سے طلبہ اور لیبر یونینوں سے خوفزدہ رہے ہیں کہ یہ عوامی رائے کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں اور مزاحمت کرنے میں پرجوش اور نتائج سے بے پروا بھی ہوتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینوں کے تحت ہونے والی سرگرمیاں قومی لیڈروں کی نرسری کا بھی کردار ادا کرتی تھیں۔ طلبہ یونینوں کے خاتمے سے electables کو بنانے اور انہیں کنٹرول کرنے میں بھی سلیکٹروں کو آسانی ہوگئی۔ لیبر یونینوں کا تو خاتمہ بالخیر کردیا گیا ہے اور اب اس کے تن مردہ میں جان پڑنے کی کوئی امید بھی نہیں ہے۔ طلبہ چونکہ ایک خاص عمر کے ہوتے ہیں اور ہر سال یونیورسٹی میں ایک نئی کھپ آن موجود
ہوتی ہے اس لیے طلبہ یونینوں کے زندہ ہونے کے ہمیشہ امکانات رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 29 نومبر کو طلبہ یونین کے حوالے سے منائے جانے والے دن کو ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں پزیرائی ملی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی بحالی کا ذکر اس وقت چھیڑا گیا جب سلیکٹرز پاکستان میں پس پردہ نہیں رہے بلکہ وہ کچھ اس طرح سے ہدایات دے رہے ہیں جیسے کوئی موسیقار سب کے سامنے سازندوں کو اپنی چھوٹی چھڑی لہرا کر ہدایات دے رہا ہوتا ہے۔ طلبہ یونینوں کی بحالی کی مہم میں حیرت کی دوسری بات یہ ہے کہ جشن فیض میں یہ ٹیبلو پیش کرنے والوں میں ایک بھی طالب علم نہیں تھا۔ حیرت کی تیسری بات یہ ہے کہ لال لال کا نعرہ یا سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے کا نعرہ کمیونسٹوں کا نعرہ تھا اور جشن فیض میں ٹیبلو پیش کرنے والے سارے نوجوان اس طبقے سے تعلق رکھتے تھے جن کے خلاف کمیونسٹ انقلاب لانے کی باتیں کیا کرتے تھے۔
پاکستان کے بارے میں عمومی طور پر عالمی میڈیا کوئی منفی خبر ہی اچھالتا ہے۔ عالمی میڈیا کو پاکستان میں ہونے والی دیگر چیزوں سے کوئی خاص دلچسپی ہوتی نہیں ہے مگر طلبہ یونین کی بحالی کے لیے منائے جانے والے دن 29 نومبر کو عالمی میڈیا کی نظریں پاکستان پر ہی مرکوز تھیں۔ بی بی سی نے جشن فیض میں ہونے والے ٹیبلو کے بارے میں خصوصی رپورٹ پیش کی۔ 29 نومبر کو براہ راست کوریج کی۔ دیگر خبر رساں اداروں کی خصوصی توجہ بھی معنی خیز تھی۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ کمیونزم روس اور چین میں بھی مرچکا ہے، پاکستان میں لال لال کے نعرے بھی معنی خیز تھے۔ اس کے بعدکی ڈیولپمنٹ بھی خاصی تیز ہے۔ سندھ میں کابینہ نے طلبہ یونینوں کی بحالی کی منظوری دے دی ہے۔ اسے جلد ہی سندھ اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا جس کے بعد صوبہ سندھ میں طلبہ یونینوں کو بحال کرنے کی قانونی اجازت دے دی جائے گی۔ اصولی طور پر اس قانون کی کوئی ضرورت ہے نہیں کہ طلبہ یونین پر پابندی ایک انتظامی حکم کے تحت لگائی گئی تھی اور اسے بحال بھی ایک انتظامی حکم کے تحت کیا جاسکتا ہے۔
اس طویل پس منظر کو جاننے کے بعد کئی باتیں واضح ہوجاتی ہیںکہ طلبہ یونینوں کی بحالی کے لیے این جی اوز المعروف سول سوسائٹی باقاعدہ متحرک ہیں۔ این جی اوز کے متحرک ہونے کا واضح مطلب ہے کہ یہ پروجیکٹ درآمد شدہ ہے اور اس کی بیرونی فنڈنگ بھی کی جارہی ہے۔ عالمی میڈیا انتہائی دلچسپی رکھتا ہے، طلبہ یونینوں کی بحالی میں متحرک لوگوں میں صرف طلبہ ہی موجود نہیں ہیں، ان کے علاوہ باقی سارے ہی لوگ موجود ہیں۔ اس سب کو جاننے کے بعد کئی سوالات بھی ابھرتے ہیں۔ سب سے اہم سوال تو یہی ہے کہ ایسے وقت میں جب سلیکٹرز کی مرضی کے بغیر ملک میں پتا بھی نہیں ہلتا ہے، تو پھر طلبہ یونین کی بحالی کی تحریک کی سرکاری اور عالمی سرپرستی کیوں۔ طلبہ یونین کی بحالی کے پس پشت اصل کردار کون ہیں اور ان کے حقیقی مقاصد کیا ہیں۔ ان سوالات کے جواب آئندہ آرٹیکل میں بوجھتے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔