کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے

912

ترقی پسند تحریک کے ایک جلسے میں خاتون ادیب اختر جمال نے اپنی پرجوش تقریر میں کہا ’’آج ہمارا پرچم سرخ ہے، ہمارے ارادے سرخ ہیں۔ ہمارے قلم سرخ ہونے چا ہییں، ہماری روشنائی سرخ ہونی چا ہییں، ہمارے افسانے سرخ ہونے چا ہییں، ہماری غزلیں سرخ ہونی چا ہییں‘‘۔ تو مجاز کھڑے ہوئے اور عرض کیا ’’محترمہ کم سے کم گلابی کی اجازت تو دیجیے‘‘۔ فیض میلہ میں ’’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘‘۔ کے نعروں کے بعد ممکن تھا کہ فضا سرخ ہوجاتی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے فیصلے نے پورے ملک کو گلابی کردیا۔ قوم خوشی سے یوں بے حال ہوگئی جیسے گلابی کے جام پر جام چڑھا لیے ہوں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی ان پر رشک کرتے ہوں گے۔ ممکن ہے غالب کی طرح انہوں نے جسٹس کھوسہ کو پیشکش بھی کردی ہوکہ میرے سارے فیصلے لے لو جنرل باجوہ کی ایکس ٹنشن کا فیصلہ دے دو۔ یہ فیصلہ نہ آتا تو اگلے ساڑھے تین برس قوم کو جنرل باجوہ کے بغیر گزارا کرنا پڑتا۔ ہمارے بس میں نہیں ورنہ اس فیصلے پر اختر جمال کی آرزو کی تکمیل میں داد دے دے کر زانو سرخ کردیتے، جسٹس کھوسہ کا۔ اس فیصلے کے بعد انصاف کے ترازو سے جو مینڈک پھدک پھدک کر نکل گئے ہیں ان کا ملک وقوم کے نام ایک ہی پیغام ہے تسلیم ورضا کو شیوہ نہیں عقیدہ بنائیے اتنا پختہ کہ عدالت بندے سے خود پوچھے بتا تیری واٹس اپ کیا ہے۔
کسی شاعر نے مشاعرے میںایک خاتون کو دیکھا تو ہزار جان سے اس پر فدا ہوگئے۔ مشاعرے کے اختتام پر خاتون کے پاس پہنچے اور بولے ’’اے دشمن ایمان وآگہی! کیا تم یہ گوارا کرو گی کہ میرے دل کے مرتعش جذبات تمہارے پاکیزہ عطر بیز تنفس کی آمدوشد سے ہم آہنگ ہوسکیں؟‘‘ اس انداز بیان پر حسینہ چکرا کر رہ گئی۔ بولی’’تم کہنا کیا چا ہتے ہو؟‘‘ شاعر نے کہا ’’میں چاہتا ہوں تم مجھ سے شادی کرلو اور میرے بچوں کی ماں بننا گوارا کرلو‘‘۔ حسینہ نے حیرت سے پوچھا ’’کتنے بچے ہیں تمہارے؟‘‘۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آنے کے بعد ٹی وی اسکرین پر دھماکے شروع ہوئے تو فیصلے میں پنہاں عزم وحوصلے سے ہم بھی چکرا کر رہ گئے۔ توسیع میں کیا کمال تصرف کیا گیا ہے۔ توسیع کے بڑھاپے کو جوان کردیا گیا۔
کودا کوئی یوں گھر میں تیرے دھم سے نہ ہوگا
جو کام ہوا ہم سے وہ رستم سے نہ ہوگا
پاکستان کی عدالتوں کے فیصلوں کو مچی مچی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے۔ خواب آنکھوں سے رخصت کرکے پھر پڑھنا چاہیے۔ عسکری محسنوں سے متھا خوری کرنا، ان کی راہ کھوٹی کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ کسی الٹے سیدھے فیصلے کے نتیجے میں قوم کو اگر جنرل باجوہ سے دوری کا صدمہ اٹھانا پڑتا تو قوم کا کیا حال ہوتا۔ ہم تو تصور ہی سے پانی پانی ہونے لگتے ہیں۔
تجھ سے بچھڑ کر زندہ ہیں
جان بہت شرمندہ ہیں
چمن میں دیدہ ور صدیوں کی خواری اور ریں ریں کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ اندازہ کیجیے ایک عسکری لیجنڈ کتنے ’’سناریو‘‘ گزرنے کے بعد جنم لیتا ہوگا۔ اسے انصاف کی پکڑائی کی نذر کردینا صدیوں کے رانڈ رونے کو دعوت دینا ہے۔ عدالت کے فیصلے نے ہمیں کتنی بڑی حماقت سے بچا لیا۔ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل باجوہ تک ہم نے اپنے محسنوں کی وہ قدر نہیں کی جیسی کرنی چاہیے تھی۔ اللہ بھلا کرے ان محسنوں کا جنہوں نے قوم کو قدردانی تعلیم کی، جدا ہونا گورار نہیں کیا اور خود ہی ایکس ٹنشن پہ ایکس ٹنشن لے کرفتوحات کی تاریخ رقم کرتے چلے گئے۔ جنرل باجوہ اس روش سے انحراف کرتے، وزیراعظم نے کمال تدبر سے کئی ماہ پہلے ہی ایکس ٹنشن دے کر انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا۔ عمران خان کی حکومت حماقتوں کے جس مائونٹ ایورسٹ پر تشریف فرما ہے جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع دے کر اس نے تلافی کردی ہے۔ رہی سہی کسر عد لیہ نے پوری کردی۔ تصور کیجیے جنرل باجوہ رخصت ہوجاتے تو بھارتی درندوں کے ہاتھوں لٹتی ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں اور جان دیتے کشمیری کس کا انتظار کرتے۔
اس فیصلے کے بعد چلنے والی ہوائوں کا رخ پارلیمنٹ کی طرف ہوگا۔ ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو تو پلیٹلٹس نے بچا لیا۔ پلیٹلٹس کی گنتی ایسی بھاری پڑ ی کہ حکومت اپنے دعووں کی گنتی بھول گئی۔ اب دیکھیے پارلیمنٹ کے عشاق بتوں سے کیا فیض پاتے ہیں۔ عمران خان تقریر ہی کے نہیں تقدیر کے بھی سکندر ہیں۔ نوٹی فیکیشن کی تیاری راکٹ سائنس کا سوال نہیں تھا جس میں اتنی غلطیاں کی جاتیں۔ بار بار مسودے کی تیاری بار بار غلطیاں۔ سمجھ دار لوگ غلطیوں کی اس سنگینی میں کچھ رنگینی محسوس کررہے ہیں۔ پھر بھی کہیں سے کوئی ناراضی نہ خفگی کا اظہار۔ شاید معاملہ پکا ہونے کے بعد اس لتراپے کا حساب چکایا جائے۔
کالم کے عنوان کے بارے میں وضاحت کردیں کہ ایک فلمی گیت کا مکھڑہ ہے۔
کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے
کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے
ہم فلمی شاعری سے اجتناب کرتے ہیں لیکن جنرل باجوہ کی ایکس ٹنشن پر عدالت کا فیصلہ آیا تو ہمیں اس سے زیادہ موزوںکچھ سجھائی نہیں دیا۔ ایک ایسے شخص کی درخواست سماعت کے لیے منظور کی گئی جس کی زندگی غیر سنجیدہ درخواستیں دینے سے اٹی ہوئی ہے تو لگا کچھ نیا ہونے جارہا ہے۔ پھر پہلے دو دن عدالت کی طرف سے ایسے ریمارکس سامنے آئے، ایسی فضا بنی، لگا کہ جنرل باجوہ گئے سو گئے۔ جب بنچ کی طرف سے یہ قرار دیا گیا کہ قانون میں دوبارہ تعیناتی کی گنجائش ہے اور نہ ایکس ٹنشن کی تو اندر سے آواز آئی ’’اے صدقے‘‘۔ لگا عمر عزیز کے 72برس بعد اللہ نے سن لی۔ جب یہ کہا گیا کہ ایک ریٹائرڈ جنرل دوبارہ اپنے عہدے پر کیسے فائز ہوسکتا ہے تو دل اچھلنے لگا اتنی راست گوئی!! ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی۔ عدالت کی طرف سے پیہم یہ تاثردیا گیا کہ معزز جج صاحبان کی نظر میں قوم کے دفاع میں فرد کی اہمیت بہت کم ہے۔ عدالت یہ سمجھتی ہے کہ فوج بطور ادارہ قوم کا دفاع کرتی ہے۔ لیکن فیصلہ آیا تو ایسا محسوس ہوا جیسے عدالت کچھ کہتے کہتے رہ گئی ہے۔ کچھ کرتے کرتے رک گئی ہے۔
کچھ بھی کہا جائے ہمیں محترم جج صاحبان کا سلوک خوش آیا۔ ایسے فیصلے کو لے کے کوئی کیا چاٹے جس میں قوم کو عسکری محسنوں سے دوری کے صدمے اٹھانے پڑیں۔ ہماری عدالتی تاریخ سے یہ فیصلہ نکال دیا جائے تو ہمیں دنیا کا سامنا کرنے میں کتنی شرمندگی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ آئی بلا کو سر سے ٹالنے کے لیے معاملہ جس طرح چھوٹوں کے سپرد کردیا جاتا ہے ایسے ہی پارلیمنٹ کی طرف لڑھکادیا گیا ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعد قانون سازی کے سمے معزز اراکین پارلیمنٹ کا حال ان بندروں کی مثل ہوگا جنہیں پکڑنے کے لیے ناریل میں بس اتنا سوراخ کیا جاتا ہے کہ بندر کا صرف پنجہ اس میں جاسکے۔ بندر سوراخ میں ہاتھ ڈال کر بہت ساکھوپرا مٹھی میں بھر لیتا ہے۔ بھری مٹھی ناریل سے نکل نہیں پاتی اور کھوپرا چھوڑنے کا لالچی بندر تصور نہیں کرسکتا۔ نتیجہ بقیہ زندگی مداری کی ڈگڈگی پر دو ٹانگوں پر کھڑا ہوکر گلی کے لونڈوںکو سلام کرنا پڑتا ہے۔