اسلام آباد (آن لائن)عدالت عظمیٰ نے شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی میں ملازمین کی ریگولرائزیشن سے متعلق کیس کی سماعت کے دور ان شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی چترال کے رجسٹرار کو اگلی سماعت پر طلب کر لیا۔ بدھ کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دور ان سماعت عدالت نے کہاکہ چترال کیمپس اب یونیورسٹی بن چکی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہاکہ ملازمین کو ریگولرائز کرنا یونیورسٹی کے ہاتھ میں ہے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس بجٹ نہیں۔ انہوںنے کہاکہ جب بجٹ نہیں تھا تو دوبارہ سے یونیورسٹی نے اشتہار کیوں دیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ کوئی طریقہ کار ہی نہیں ہے آپ نے تعلیم کو کاروبار سمجھنا شروع کردیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ملازمین کو ریگولرائز کرنا چاہیے، قانون کے مطابق بھرتیاں ہونی چاہییں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ جب یونیورسٹی نے اشتہار دیا تھا تو کیا یہ دیکھا تھا کہ بجٹ میں تمام تقرریاں مکمل ہو جائیں گی ۔وکیل یونیورسٹی نے کہا کہ یونیورسٹی نے اپنے ذاتی بجٹ سے تمام اخراجات برداشت کیے، ایچ ای سی کوئی فنڈ نہیں ملے تھے۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ اگر ایچ ای سی بجٹ نہیں دے گی تو کیا پھر یونیورسٹی سب ملازمین کو نکال دے گی، جن ملازمین کی کارکردگی اچھی ہوتی ہے انہیں نہیں نکال سکتے۔دلائل سننے کے بعد عدالت عظمیٰ نے شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی چترال کے رجسٹرار کو اگلی سماعت پر طلب کر لیا۔ بعد ازاں سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔علاوہ ازیںعدالت عظمیٰ نے مختلف صوبوں سے ڈیپوٹیشن پر وفاق اور دیگر صوبوں میں بھیجنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ عدالت عظمیٰ اس حوالے سے متعلقہ فورم نہیں، متاثرین متعلقہ فورم سے رجوع کریں، کیس کی سماعت جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں2رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت ڈاکٹرز کے وکیل نے موقف اپنایا کہ2005ء اور 2007ء میں ڈاکٹروں کو بلایا گیا، اب دوبارہ حکومت نے سرکلر جاری کر دیا ہے کہ تمام ڈاکٹرز کو متعلقہ صوبوں میں بھیجا جائے، حکومت کے اس عمل سے درجنوں ڈاکٹر متاثر ہو رہے ہیں، جسٹس گلزار احمد نے اس موقعے پر ریمارکس دیئے کہ عدالت عظمیٰ اس حوالے سے متعلقہ فورم نہیں، متاثرہ ڈاکٹرز اس حوالے سے متعلقہ فورم سے رجوع کریں، عدالت نے معاملہ کو غیر متفقہ قرار دیتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا ہے۔