سندھ کی صورتحال کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صوبے میں حکومت اور انتظامیہ نام کو بھی موجود نہیں ہے اور عوام کو آوارہ کتوں ، ملیریا ، انفلوئنزا اور ڈینگی پھیلانے والے مچھروں ، ہر قسم کی وبائی بیماری پھیلانے میں مددگار کچرے کے ڈھیر اور جگہ جگہ سیوریج کے بہتے پانی ، ٹوٹی سڑکوں جس کے نتیجے میں لوگ حادثات کا شکار ہورہے ہیں ، سڑک پر اڑتی دھول جس سے شہری آشوب چشم، دمہ اور الرجی کا شکار ہورہے ہیں وغیرہ وغیرہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف کراچی کے دو اسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کے دو سو سے زاید کیس روزانہ رپورٹ ہورہے ہیں مگر کوئی اس پر عملی قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ کتوں کو پکڑ کر انہیں ریبیز کے خلاف اور بانجھ بنانے کے لیے انجیکشن لگائے جارہے ہیں ۔ اول تو ایسی کسی بھی مہم کا مشاہدہ کسی بھی شہری نے نہیں کیا ہے ۔ تاہم اگر ایسا ہو بھی رہا ہے تو ارباب اقتدار کیا اس سوال کا جواب دیں گے کہ انجیکشن لگانے سے یہ کتے شہریوں کو کاٹنے سے رک جائیں گے ۔ کتوں کے غول کے غول ہر محلے ، کوچے اور شاہراہ پر گھوم رہے ہیں اور معصوم بچوں کوگھیر کر ان پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔ کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے ایک چالیس سالہ باپ اپنی کمسن بچی کو کتوں کے حملے سے بچاتے ہوئے شدید زخمی ہوگیا تھااور اسپتال جا کر جان کی بازی ہار گیا ۔ اس خوفناک صورتحال کے جواب میں بلدیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت ایک ہی جواب دیتی ہے کہ کتوں کو انجیکشن لگائے جارہے ہیں ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ سندھ حکومت اور بلدیاتی اداروں کو کتوں، مچھروں اور مکھیوں نے منتخب کیا ہے کہ عوام نے ۔ بلاناغہ روزانہ سیکڑوں افراد ڈینگی کا شکار ہورہے ہیں اور ان میں سے کئی اپنی جان سے گزر جاتے ہیں ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ٹائیفائیڈ، گیسٹرو، ملیریا اور دمہ وغیرہ کی ہے ۔ سڑک پر دھول اڑنے کی وجہ سے فضامیں ہر وقت گرد کے بادل رہتے ہیں جس کے باعث اب کراچی کو بھی آلودہ شہروں میں شامل کرلیا گیا ہے ۔ کوئی اور ملک ہوتا جہاں پر شہریوں کے حقوق ہوتے ہیں تو اس صورتحال کے مقابلے کے لیے جنگی بنیادوں پر حکمت عملی تیار کی جاتی مگر سندھ میں تو یہ صورتحال ہے کہ کتوں سے بچاؤ کے لیے ہی کوئی کام کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ حکومت تو حکومت ، سندھ کے عوام میں بھی اپنے شہری حقوق کا شعورنہیں ہے ۔ ہر مرتبہ انتخابات میں ان ہی لوگوں کو منتخب کرلیا جاتا ہے جو پشت ہا پشت سے منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں اور انہوں نے حکومت کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے ۔اب سندھ کے عوام کو جاگ جانا چاہیے اور آئندہ انتخابات میں بلدیاتی اداروں اور سندھ کی صوبائی حکومت پر قابض ٹولوں کی ہمیشہ کے لیے چھٹی کردینی چاہیے ۔ سندھ کی سماجی تنظیموں کو بھی چاہیے کہ وہ اس ضمن میں اپنا مثبت کردار ادا کریں اور سگ گزیدگی اور ڈینگی سے اموات کی صورت میں قتل کا مقدمہ بلدیاتی اداروں کے ذمہ داران اور وزیر بلدیات و وزیراعلیٰ کے خلاف درج کروایا جائے کہ وہ ان اموات کے براہ راست ذمہ دار ہیں ۔ وہ جانتے بوجھتے کتوں اور مکھی مچھروں کے خلاف کوئی موثر مہم چلانے سے انکاری ہیں اور انہوں نے پورے صوبے کو کچرے و سیوریج میں دفن کردیا ہے ۔