نالائقی ،نا تجربہ کاری ، نا اہلی یا نا معقولیت؟موجودہ حکومت کے بارے میں اب سرکاری مسخروں کے سوا سب کی زبان پر یہی کچھ ہے۔ پاک فوج کے سالار جنرل باجوہ کو بھی متنازع بنا دیاگیا ہے ۔ ہر کہہ ومہ کی زبان پر یہی ہے کہ حکومت معمول کا ایک کام بھی ڈھنگ سے نہیں کر سکتی تو اور کیا کرے گی ۔ عمران خان نے اپنے اطرف جیسے غیر سنجیدہ افراد جمع کر رکھے ہیں انہیں سوائے نواز شریف کی بیماری کا مذاق اُڑانے یا مولانا فضل الرحمن اور بلاول زرداری پر جگت بازی کے کوئی اورمشغلہ نہیں ہے ۔ عمران خان کے منہ سے جو بھی نکل جائے وہ ان مسخروں کے لیے سند بن جاتا ہے اور ہر ایک اس کی تاویلات پیش کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی فکر میں رہتا ہے ۔ خود عمران خان بھی ماضی میں کہی گئی ہر بات بھلا کر بڑے اطمینان سے یوٹرن لے لیتے ہیں ۔ ستم یہ ہے کہ ماضی میں کہا گیا ان کا ہر جملہ ریکارڈ پر ہے ۔ انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے کسی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی شدید مخالفت کی تھی ۔ اب باجوہ کو ایکسٹنشن دے رہے ہیں ۔ لیکن یہ کام ڈھنگ سے کیا ہوتا تو عدالت عظمیٰ کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ چھکڑے کے آگے گھوڑاباندھاجا رہا ہے ۔ اسی طرح وہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے پر بضد تھے اور اب انہی کی حکومت رکاوٹ بن گئی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان اب تک کرکٹ کے میدان سے باہر نہیں آئے جہاں بطور کپتان وہ جس کھلاڑی کو جہاں چاہتے کھلاتے یا فیلڈ سے باہر نکال دیتے ۔ گو کہ اس وقت بھی وہ امپائر کی انگلی کے پابند تھے لیکن اب انہیں اس کا خوف نہیں ۔ ان کے تمام وزراء ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ خطے کے حالات اور پاکستان کو در پیش خطرات کے پیش نظرجنرل باجوہ کا وجود ضروری ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ بھارت نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایبٹ آباد میں بم گرا دیے لیکن بھارت کے دو طیارے مار گرائے گئے ۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اب وہ پاکستان کا پانی روک رہا ہے ۔ افغانستان کا مسئلہ بھی حل طلب ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا جنرل باجوہ نے بھارت کا طیارہ گرایا ، مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کی اور کیا جنرل باجوہ کے ہوتے ہوئے بھارت پاکستان کو ملنے والے دریائوں کا پانی روک سکے گا؟ اور کیا ان کے سوا پاک فوج میں کوئی اور ان کی جگہ لینے کے قابل نہیں ہے ۔ یہ سوال منگل کو دوران سماعت عدالت عظمیٰ نے بھی اٹھایا ہے کہ علاقائی سلامتی سے نمٹنا کسی ایک فرد کا کام نہیں بلکہ بطور ادارہ پوری فوج کا کام ہے ۔ اور اگر یہ دلیل تسلیم کی گئی تو فوج کا ہر فرد دوبارہ تعیناتی چاہے گا ۔ یعنی ہر فرد ناگزیر ہو گا ۔ یہ تو پاک فوج کے ادارے پر عدم اعتماد کا اظہار ہے کہ ایک فرد کے سوا کوئی بھی اہل نہیں ۔ اچھا ، اگر تین سال کی توسیع دے بھی دی گئی تو اس کے بعد کیا ہو گا؟ کیا یہ طے ہے کہ تین سال بعد حالات بدل جائیںگے ، بھارت اپنے مکروہ عزائم سے باز آ چکا ہوگا ، پاکستان کے دریائوں میں روانی آ جائے گی اور مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ بن جائے گا؟ عمران خان تو کہتے ہیںکہ خبر دارکوئی کنٹرول لائن کا رُخ نہ کرے ورنہ غدار قرار دیا جائے گا ، کوئی جہاد کی بات منہ سے نہ نکالے ورنہ یہ پاکستان سے دشمنی ہو گی ۔ویسے تو کبھی پاک فوج کا ’’موٹو‘‘ یا نعرہ الجہادہواکرتا تھا ۔ عمران خان دوسروں کو مغل شہنشاہ ہونے کا طعنہ دیتے رہے ہیں لیکن ان کے اقدامات سے یہ لگتا ہے خود انہیں بھی یہ وہم ہے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں، خلاف ضابطہ اور خلاف قواعد آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔انہوں نے ایک سادہ کاغذ پر لکھ دیا چنانچہ یہ حکم ہو گیا ۔ پہلے منظوری دی پھر صدر مملکت کو سمری بھیجی گئی ۔ کابینہ کے 25 ارکان میں سے صرف گیارہ نے منظوری دی لیکن وکالت کرنے والے کہتے ہیں کہ جنہوں نے سرکلر پر دستخط نہیںکیے تو انہوں نے مخالفت بھی تو نہیں کی ۔ وزیر اعظم نے اپنے طور پر یہ سب کچھ اپنے طور پر کیا ، کابینہ نے منظوری نہیں دی تھی اورجب غلطی کا احساس ہوا تو سمری صدرکو بھجوائی گئی ۔ چنانچہ عدالت عظمیٰ نے گزشتہ منگل کو جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع معطل کر دی ۔ بدھ کو بھی سارا دن عدالت میں بحث جاری رہی اور بہت دلچسپ سوال ،جواب ہوئے۔ا یک بات بہت واضح تھی کہ جناب اٹارنی جنرل بوکھلائے ہوئے تھے اور جواب بن نہیں پڑ رہا تھا۔ ایک تماشا فروغ نسیم نے کیا کہ وزیر قانون کا منصب چھوڑ کر جنرل باجوہ کی وکالت کرنے پہنچ گئے جب کہ بطور وکیل ان کا لائسنس معطل ہے۔ چنانچہ عدالت عظمیٰ نے انہیں وکالت کرنے کا موقع نہیں دیا۔ یہ کام تو جنرل باجوہ کو کرنا چاہیے تھا کہ کسی اور کو اپنا وکیل کرتے۔ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے فروغ نسیم پہلے غدار پرویز مشرف کی وکالت کرتے رہے ہیں اور انہوں نے پرویز مشرف کی ضمانت لی تھی کہ وہ واپس آئیںگے۔ کیا فروغ نسیم کو آگے کرنے کی غلطی بھی عمران خان سے سرزد ہوئی ہے؟ جنرل باجوہ یقینا بڑے با صلاحیت افسر ہیں اور ان کے کھاتے میں کئی کامیابیاں ہیں لیکن ’’ایک ہی شخص ہے جہان میں کیا؟‘‘ انہیں متنازع بنانے میں بھی عمرانی حکومت کا دخل ہے۔ عمران خان نے جو سمری تیار کی اور معاملے کو بگاڑا، یہ کام تو وزارت قانون کا ایک کلرک بڑی مہارت سے کر سکتا تھا۔ عمران خان اپنے ہی چہیتوں کے جھانسے میں آگئے۔ انہیں سب سے پہلے ان کی خبر لینی چاہیے جنہوں نے انہیں اس دلدل میں پھنسایا ہے۔ ظاہر ہے کہ عمران خان کو خود تو حکومت کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے، انہیں آسانی سے اپنی راہ پر لگایا جاسکتا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا کہنا ہے کہ ’’غیر سنجیدہ اقدامات سے حکومت اپنے لیے خود قبر کھود رہی ہے، وزیراعظم عدلیہ کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں، حکومت نہیں چل رہی تو قبل از وقت انتخابات کرا دیے جائیں‘‘۔ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی سمری میں فروغ نسیم کا کردار بطور وزیر قانون یقینا اہم ہوگا تاہم لا سیکرٹری اور عمران خان کے پرسنل سیکرٹری اعظم خان بھی ذمے دار ہیں۔ جناب چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنی مدت ملازمت میں یہ پہلا از خود نوٹس لیا ہے اور وہ بھی ریٹائرمنٹ سے 24 دن پہلے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ایک خطاب میں کہا تھا کہ سووموٹو ایکشن لینے کا سلسلہ روک دیا گیا ہے۔لیکن پہلی مرتبہ یہ ایکشن ایک ایسے شخص کی درخواست پر لیا گیا جس نے مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف اپنی درخواست خود ہی واپس لے لی اور منگل کو حاضر بھی نہیں ہوا۔ یہ شخص ریاض راہی ایسی درخواستیں دینے کا عادی ہے۔ بہرحال عدالت عظمیٰ میں جاری یہ معاملہ بہت اہم ہے اور اس کے فیصلے سے کئی قوانین کی ازسر نو تشریح ہو سکے گی۔ اس اثنا میں افواہوں کے جو جھکڑ چل رہے ہیں اس کی ذمے دار بھی نالائق حکومت ہے جس کا اصرار ہے کہ فوج اور حکومت ایک صفحہ پر ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے؟اب اطلاعات کے مطابق عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے تیسری سمری تیار کی جارہی ہے۔ عمران خان کی حکومت نے بھی تہیہ کر لیا ہے کہ جنرل باجوہ کو توسیع دلا کر رہے گی۔ آرمی چیف کا عہدہ پاکستان میں بہت طاقتور ہوتا ہے لیکن وہ بہرحال حکومت کے ماتحت ہوتا ہے، ایک پیج پر نہیں ہوتا۔ مگر پاکستان کی تاریخ بہت مختلف ہے۔ یہاں تو جرنیل آئین سے غداری کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیتے ہیں اور پھر خود ہی اپنی مدت ملازمت میں توسیع کرتے رہتے ہیں۔ پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان تو از خود فیلڈ مارشل بھی بن بیٹھے تھے۔ بہرحال آج ایک اہم ترین مقدمے کا فیصلہ ہو جائے گا اور امید ہے کہ عمران خان کسی نئی حماقت کے لیے آزاد ہوں گے۔