سابق وفاقی وزیر قانون اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کو چھ ماہ کےلئے نہیں تین سال کےلئے توسیع دی ہے جنرل قمر جاوید باجوہ حکومت کی طرف سے دی گئی توسیع کی مدت پوری کریں گے۔
اسلام آباد میں سابق وزیرقانون فروغ نسیم، فردوس عاشق اعوان، شہزاد اکبر اور اٹارنی جنرل انور منصور خان نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔
اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے جس انداز میں آئین کی تشریح کی ہے آئندہ بھی اس سے رہنمائی ملے گی،عدالت میں دائر پٹیشن کا ایشو تین دن پہلے چلا اور مختلف قوانین پر بحث ہوئی جس میں کئی چیزیں سامنے آئیں،آرمی ایکٹ قیام پاکستان سے پہلے کا ہے،یہ ایکٹ پہلے کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں ہوا اور نہ ہی عدالت میں زیر بحث آیا ۔
انہوں نے کہا کہ 1973کے آئین کے بعد مختلف آرمی چیف کا تقرر ہوا اور ان کو توسیع بھی دی گئی اور اسی انداز میں ہی موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ کو توسیع دی گئی اور اس توسیع میں بھی انہی رولز اور اسی طریقہ کار کو اپنایا گیا اور ماضی کے طریقہ کار کے مطابق ہی سمری بنائی گئی اور اس میں کوئی نئی چیز شامل نہیں کی گئی،جو طریقہ کار چلا آرہا تھا اسکے مطابق ہی نوٹیفکیشن ہی نوٹیفکیشن بنایا گیا۔
انور منصور نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں آرمی چیف کی تقرری سے متعلق قانون بنانے کا بھی کہا ہے جس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت اور تقرری کا طریقہ کار طے کیا جائے اور آئندہ اس قانون پر عمل درآمد کر کے آرمی چیف کا تقرر کیا جائے اور قانون میں تقرری کے طریقہ کار کو واضح کرنے کا کہا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کبھی کسی حکومت نے آرمی چیف کی تقرری سے متعلق قانون بنایا ہی نہیں تھااس لئے عدالتی فیصلہ حکومت کی شکست نہیں بلکہ یہ حکومت کےلئے اعزاز کی بات ہے کہ موجودہ حکومت قانون بنائے گی،میڈیا سپریم کورٹ کے فیصلے کو جس انداز میں پیش کررہا ہے دشمن اس کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے ۔
حکومت پر کسی قسم کی کوئی تلوار نہیں لٹک رہی،فروغ نسیم
آرمی چیف جنرل باجوہ کے وکیل اور سابق وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے حکومت نے جو طریقہ کار اپنایا یہ بالکل وہی طریقہ تھا جو ماضی میں اپنایا جاتا رہا ہے،اس معاملے پر سپریم کورٹ کے پورے بینچ کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہماری رہنمائی کی،پٹیشن کی سماعت کے دوران وکلاءاور ججز میں جو مکالمے ہوتے رہے یہ کوئی نئی بات نہیں،میڈیا نے منفی چیزوں کو زیادہ اچھالا،بعض اوقات ججز ازراہ تفنن بھی وکلاءسے مکالمہ کرتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا نے ایک خبر بالکل جھوٹی اور بے بنیاد چلائی جس میں یہ کہا گیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے میری (فروغ نسیم )اٹارنی جنرل انور منصور اور معاون خصوصی شہزاد اکبر کی کھچائی کی ، جن چینلز نے یہ جعلی خبر چلائی ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے متعلق غور کر رہے ہیں ۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کیس انتہائی نازک تھا،دشمن ملک بھارت نے اس پر بہت باتیں کیں،ہمیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا،سپریم کورٹ نے اس کیس میں ملکی سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر فیصلہ دیا ۔
انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں اٹھارہویں ترمیم کرنےو الوں اور اس کے بعد آنے والی حکومت میں سے کسی نے بھی آرمی ایکٹ کو کیوں ٹھیک نہیں کیا جب کیس عدالت میں چلتا ہے تو ہمارے ہاتھ اور زبانیں بندھی ہوئی ہوتی ہیں۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ میں نے وزارت قانون سے خود استعفیٰ دیا مجھے استعفیٰ کےلئے وزیراعظم عمران خان نے نہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا،میں ملک کے لئے خود استعفیٰ دیا اور پوری کابینہ نے میرے اس اقدام کو سراہا۔
ایک سوال پر فروغ نسیم نے کہا کہ سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت میں توسیع سے متعلق دائر پٹشین اب ختم ہوگئی ہے،حکومت پر کسی قسم کی کوئی تلوار نہیں لٹک رہی،یہ خبریں بالکل غلط ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں کی گئی توسیع چھ ماہ ختم ہوجائےگی بلکہ وہ دی گئی توسیع کی تین سالہ معیاد پوری کریں گے ۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع آج (29نومبر) سے کی گئی ہے اور عدالت نے چھ ماہ میں قانون بنانے کا کہا ہے اور اس میں آرمی چیف کے عہدے کی مدت کا تعین اور توسیع وفاقی حکومت کی صوابدید ہے۔
انہوں نے کہا کہ دشمن کا ایجنڈا ہے جو جرنیل دشمن کے سامنے چٹان کی طرح کھڑا ہے اسے ادھر ادھر کردیا جائے، اس وقت قوم کو جنرل قمر جاوید باجوہ کا بھرپوردینا چاہیے کیونکہ وہ ایماندار،اہل،محب وطن اور جمہوریت پسند ہیں، عدلیہ،آرمی چیف اور اداروں پر سیاست نہ کی جائے ۔
عدالتی فیصلہ سے جمہوریت،آئین اور قانون کی جیت ہوئی ہے،معاون خصوصی برائے اطلاعات
اس موقع پر وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات ڈاکٹر فرودوس عاشق اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو کسی شخصیت سے نہ جوڑا جائے،عدالت نے شخصیت کی بنیاد پر ایکشن نہیں لیا،عدالتی فیصلہ سے جمہوریت، آئین اور قانون کی جیت ہوئی ہے، پاکستان کے جمہوری اداروں نے جو کام شروع کیا ہے عدالتی فیصلے سے اسے استحکام ملا ہے جبکہ پاکستان کے باہر بیٹھے ہوئے سازشی عناصر کا خواب چکنا چور ہوا ۔
آئین اور نظام کی مضبوطی کے باعث معاملہ جلد نمٹ گیا،شہزاد اکبر
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ آج کا فیصلہ بہت تاریخی فیصلہ ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے نے واضح کردیا ہے کہ آئین کہ آرٹیکل243کے استعمال کا اختیار وزیراعظم کا ہے اور اسی اختیار کے تحت ہی آرمی چیف کی تقرری ہوئی ہے اور جو نوٹیفکیشن حکومت کی طرف سے عدالت میں دیا گیا ہے وہ واضح ہے اور اب کوئی ابہام نہیں۔
بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ عدالت نے لیگل ایشور پر رہنمائی کی،آئین اور نظام کی مضبوطی کے باعث معاملہ جلد نمٹ گیا،موجودہ ملکی حالات کے پیش نظر اس مسئلہ پر محتاط انداز میں بحث کی جائے۔