کراچی میں موسم سرما کی پہلی بارش تو اب ہوئی ہے اور وہ بھی برائے نام، لیکن ہمارے ہاں یہ بارش دو ماہ پہلے ہوگئی تھی۔ پھر ایک نہیں کتنی ہی بارشیں ہوئیں، ہر دو چار دن بعد بادل گھر کر آتے اور برس کر چلے جاتے، یہ ساون کی برکھا تو تھی نہیں کہ جھڑی لگ جاتی اور بادل کھلنے کا نام نہ لیتے۔ یہ بادل دراصل مسرت کا سندیسہ لے کر آتے تھے اور خبردار کرکے چلے جاتے تھے کہ ہوشیار ہوجائو سردی آرہی ہے۔ چناں چہ چند بارشوں کے بعد سردی پہاڑوں سے اُتر کر میدانوں میں آگئی۔ ابتدا میں یہ گلابی سردی تھی نہایت خوشگوار اور طمانیت بخش۔ شدید گرمی سے مرجھائے ہوئے چہرے کھل اُٹھے، لوگوں نے سُکھ کا سانس لیا، آگ برساتے ہوئے سورج کے تیور بھی ملائم پڑ گئے، صبح کی دھوپ راحت بخش محسوس ہونے لگی، البتہ دوپہر کی دھوپ میں ابھی تمازت باقی تھی۔ شام ٹھنڈی اور رات سرد ہوگئی تھی لوگوں نے کمبل اوڑھنے شروع کردیے تھے جب کہ دن میں ہلکے سویٹر بھی نکل آئے تھے۔ یہ سلسلہ کم و بیش دو ماہ تک چلتا رہا، پھر اچانک یکم نومبر کی شب تیز بارش اور ژالہ باری ہوئی، اس کے ساتھ ہی تیز برفانی ہوائیں چلنے لگیں، پتا چلا کہ پہاڑوں پر برفباری بھی ہورہی ہے، بس پھر کیا تھا سردی کو پَر لگ گئے، ہوا میں اُڑنے لگی۔ اسلام آباد کے پشاور موڑ پر دھرنے والوں پر بھی یہ سردی قیامت بن کر ٹوٹی، دو آدمی تو سردی سے ٹھٹھر کر مر گئے، سیکڑوں بیمار پڑ گئے، ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کانپتے ہوئے گھروں کو رخصت ہوئے۔ یار لوگ دھرنے کے اختتام کو سردی کا کمال قرار دے رہے ہیں ورنہ حضرت مولانا کے عزائم تو بہت خطرناک تھے، وہ دھرنے سے لاشیں اُٹھانا چاہتے تھے، سردی نے دو لاشیں ان کے دامن میں ڈال کر ان کی یہ خواہش بھی پوری کردی اور انہیں واپس جانے پر مجبور کردیا۔ خیر چھوڑیے اس قصے کو، سردی میدانی علاقوں میں اپنے قدم جما رہی ہے، ہم نیم پہاڑی شہر کہوٹا میں رہتے ہیں، یہاں سردی کچھ زیادہ ہی اپنی پھَبْ دکھا رہی ہے، لوگوں نے گرم چادریں اپنے بدن پر لپیٹ لی ہیں، جگہ جگہ مونگ پھلی کی بھٹیاں لگ گئیں جن میں مونگ پھلی بھونی جارہی اور لوگ اسے شوق سے خرید رہے ہیں، گرم گرم مونگ اور مکئی کی چھلیوں کا سارا کاروبار ہمارے پٹھان بھائیوں کے ہاتھ میں ہے اور سردی آتے ہی یہ کاروبار چمک اُٹھا ہے۔ یوں سردی میں ڈرائی فروٹ کا بڑا چرچا ہوتا ہے لیکن درحقیقت مونگ پھلی ہی وہ ڈرائی فروغ ہے جو عوام کی دسترس میں ہے۔ رہا چلغوزہ تو اس کا مول سنتے ہی ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ ایک دوست کا کہنا ہے کہ جو سرکاری ملازمین اپنے بچوں کو چلغوزہ کھلارہے ہیں نیب کو چاہیے کہ ان کے ذرائع آمدنی کی چھان بین کرے کہ ان کی ظاہری آمدنی سے یہ اللے تللے لگا نہیں کھاتے۔ خیر یہ تو ایک لطیفہ تھا لیکن چلغوزہ واقعی اتنا مہنگا ہے کہ ایک معقول آمدنی والا آدمی بھی اسے افورڈ نہیں کرسکتا۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں چلغوزہ ٹھیلے والے بیچا کرتے تھے اور چار آنے میں چلغوزہ اتنا مل جاتا تھا کہ سارا دن اسے ٹھونگتے رہتے تھے، اب بڑی دکانوں میں یہ شو کیس میں سجا رکھا ہے اور وہی اسے خرید سکتا ہے جس کی جیب بھاری ہے۔
سردی ہو یا گرمی، برسات ہو یا بہار و خزاں۔ یہ سارے موسم اللہ کی رحمت اور قدرت کی نشانیاں ہیں۔ ہر موسم کا اپنا لطف اور اپنا مزا ہے۔ اب سردی آئی ہے تو اپنے ساتھ بہت سی نعمتیں، راحتیں اور ذائقے بھی لے کر آئی ہے۔ پہننے اوڑھنے اور کھانے پینے کا مزا اسی موسم میں آتا ہے۔ چائے تو خیر ہر موسم میں پی جاتی ہے البتہ کشمیری چائے پینے کا لطف سردیوں ہی میں آتا ہے۔ اس کے لیے چائے کی پتی بھی خاص استعمال ہوتی ہے، اسے دودھ میں خوب اونٹایا جاتا ہے۔ پھر اس میں بادام، پستہ اور کھوپرا باریک باریک کاٹ کر ڈالا جاتا ہے۔ لیجیے صاحب کشمیری چائے تیار ہے، پیجیے اور ہر چُسکی کا لطف اُٹھائیے۔ نہاری، پائے اور شب دیگ بھی سردیوں کے کھانے ہیں، اگرچہ یہ کھابے سارا سال چلتے رہتے ہیں لیکن ان کا جو مزا سردیوں میں ہے وہ کسی اور موسم میں کہاں۔ ہاں یاد آیا مکئی کی روٹی اور سرسوں کا ساگ بھی سردیوں کی سوغات ہے لیکن یہ کھانا اہل شہر کیا جانیں، یہ تو پنجاب کے دیہی ماحول کا تحفہ ہے۔ شہری عورتیں مکئی کی روٹی پکا ہی نہیں سکتیں۔ مکئی کے آٹے میں تش نہیں ہوتی یہ آٹا ایک ایک پیڑے کا گوندھا جاتا ہے اور دیہاتی عورتیں اسے اتنی مہارت سے پارتی ہیں کہ روٹی کے کنارے ٹوٹنے نہیں پاتے۔ سردی میں میٹھی چیزیں بھی بہت لطف دیتی ہیں اس موسم میں مٹھائی کی مانگ بڑھ جاتی ہے اور مٹھائی کی دکان میں گاجر کا حلوہ بھی خوب بکتا ہے۔
نومبر کا مہینہ ختم ہونے کو ہے لیکن ابھی سردی پوری طرح جوبن پر نہیں آئی، نہ ابھی ہاتھ ٹھٹھر رہے ہیں نہ دانت بج رہے ہیں، یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوگی جب دسمبر کے وسط میں موسم کہر آلود ہوجائے گا، سورج بھی سردی سے ٹھٹھرنے لگے گا اور پہاڑوں پر کئی کئی فٹ برف پڑ چکی ہوگی ایسے میں ہمارے دوست کہتے ہیں کہ سردی جاڑے میں بدل جائے گی اور جاڑا پوری گھن گرج کے ساتھ آ دھمکے گا۔ تو صاحبو جب تک جاڑا نہیں آتا سردی میں مزے اُڑائیے، اہل کراچی گلابی سردی کا لطف اٹھاسکتے ہیں سردی نہ سہی سردی کا خیال بھی ایک شے سے کم نہیں ہے۔