کئی روز کی خاموشی کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے مخالفین کو زبان مل گئی بار بار یہ کہا جا رہا تھا کہ نئے سلیکٹرز اور نئی ٹیم کو موقع دیا جائے۔ چنانچہ موقع دے دیا گیا یہ معاملہ تو کرکٹ کا ہے لیکن پورا ملک سلیکٹرز اور سلیکٹڈ ٹیم سے پریشان ہے خواہ کرکٹ کی ہو یا سیاست کی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم مصباح الحق کی منتخب ٹیم کہی جارہی ہے اس ٹیم کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کراچی اور پنجاب کا موازنہ بھی کیا جارہا ہے لیکن پاکستان میں کیا کہا جارہا ہے اس سے بحث نہیں بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر جو سبکی ہوئی ہے اس کا جواب کون دے گا۔ میچ سے پہلے اور میچ کے بعد کی صورت حال یکسر مختلف ہے۔ کسی سائیڈ میچ میں سنچریاں بنانا اور پر اعتماد بیٹنگ کرنا کچھ اور ہے اور ٹیسٹ میچ کچھ اور پاکستان کو آسٹریلیا میں ٹیسٹ میچوں میں مسلسل 13ویں شکست ہوگئی۔ اب یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ چیف سلیکٹر سے لے کر کپتان تک سب کچھ بدلنے کا کیا فائدہ ہوا، نتائج تو وہی رہے۔ پہلے بڑھکیں ماری جاتی تھیں جیت کر دکھائیں گے۔ ٹیم مضبوط ہے کھلاڑی بہترین ہیں لیکن میدان میںاترتے ہی ساری باتیں صرف باتیں رہ گئیں۔ کرکٹ میں بھی دیگر کھیلوں کی طرح محنت، جان کی بازی لگانے اور سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف بیانات اور دعووں سے آسٹریلیا جیسی ٹیم کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ سرفراز کو کپتانی سے ہٹا کر یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ پاکستانی کرکٹ کی تباہی کا ذمے دار صرف یہی شخص تھا۔ لیکن ٹی ٹونٹی اور ون ڈے میں بھی پاکستان کی رینکنگ خطرے میں آگئی۔ ایک مرتبہ پھر اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے، ٹیم میں مقابلے کا جذبہ ختم ہو چکا ہے اب تو کوئی بھی کپتان ایک سیریز کے بعد دوسری کے بارے میں شبہے میں رہتا ہے۔ کھلاڑیوں کا اعتماد الگ متزلزل ہے۔ فی الحال کرکٹ زیر بحث ہے لیکن ہاکی کا بھی اسی طرح بیڑا غرق کیا گیا ہے۔ دنیا پر حکمرانی کرنے والا ملک اب ہاکی کے عالمی مقابلوں میں شرکت کے لیے کوالیفائنگ رائونڈز کھیلنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور اب اس سے بھی باہر ہوگئے۔ اس تباہی کی وجہ یہ ہے کہ کھیل میں سیاست اور علاقائیت کا دخل بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ سیاست کو ہمارے حکمرانوں نے کھیل بنا رکھا ہے اس لئے وہ بھی تباہی سے دو چار ہے۔ کرکٹ اور ہاکی کے سلیکٹرز اور سیاست کے سلیکٹرز کو اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ چہرے بدلنے کے بجائے انداز اور حکمت عملی کو بدلنے کی ضرورت ہے۔