اور اب نیپال سے بھی جھگڑا

561

بھارت کا یہ معاملہ عجیب ہے کہ اسے ہمسائے بُرے لگتے ہیں مگر ہمسایوں کے ہمسائے جی کو بھا جاتے ہیں۔ ہمسایوں کے ساتھ ہمیشہ بھارت کی کھچ کھچ چلتی رہتی ہے مگر ہمسایوں کے ہمسایوں کے ساتھ پیار محبت کی پینگیں ہمیشہ بڑھی رہتی ہیں۔ عمومی طور سمجھا یہی جاتا ہے اور خود بھارت بھی اس کا تاثر دیتا چلا آیا ہے کہ بھارت کے سب ہمسائے بدمعاش اور اس کی دشمنی پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں مگر وقت اس تھیوری کو غلط ثابت کررہا ہے۔ قصور ہمسایوں کا نہیں بلکہ خود بھارت کے رویے اور ذہنیت کا ہے جو ہمسایوں کو خوف اور اضطراب کا شکار کیے رکھتی ہے اور کچھ ہمسائے صبر کا کڑوا گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں مگر پاکستان اور چین کی طرح زور بازو رکھنے والے ہمسائے بھارت کے رویوں کے خلاف آمادہ ٔ مزاحمت دکھائی دیتے ہیں۔ چین، سری لنکا، بنگلا دیش اور پاکستان کے ساتھ بھارت کی مخاصمت اور کھٹ پٹ دہائیوں پرانہ معاملہ ہے اب نیپال جیسے منحنی اور نحیف ونزار سے ائے کے ساتھ بھی بھارت کے تعلقات میں تنائو اور کھچائو کا سلسلہ تیز ہوگیا ہے۔
کشمیر کو اپنے تئیں ہضم کرنے کے بعد بھارت کا جو نیا سرکاری نقشہ جاری کیا گیا ہے اس نے پاکستان، چین اور اقوام متحدہ تک بہت سوں کو متاثر اور مزید ناراض تو کرہی دیا تھا نیپال بھی اس نقشے پر بگڑ بیٹھا ہے۔ اس نئے نقشے میں آزادکشمیر، گلگت بلتستان اور اکسائے چن کو مقبوضہ جموں وکشمیر اور لداخ کے ساتھ ساتھ یونین ٹیریٹری بتایا گیا ہے۔ اس طرح ریاست جموں وکشمیر کی مسلمہ متنازع حیثیت کو یک طرفہ طور پر بدلنے کی اپنی سی کوشش کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور چین کے ساتھ ساتھ عالمی ادارے نے بھی اس نقشے کو مسترد کر دیا۔ اس نقشے میں کالا پانی کو بھی بھارت کا حصہ ظاہر کیا گیا اور یہی بات نیپال میں عوامی بے چینی کی وجہ بن گئی ہے۔ کالا پانی کو نیپال اپنا علاقہ قرار دیتا ہے اور یہاں حفاظتی انتظام انڈو تبت پولیس کی ذمے داری ہے۔ کالاپانی نیپال کے مغربی سرے پر واقع ہے۔ یہ علاقہ بھارت کی ریاست اتراکھنڈ میں پتھوڑا گڑھ ضلع میں35مربع کلومیٹر اراضی پر محیط ہے اور یہاں انڈو تبت سرحدی پولیس کے اہلکار تعینات ہیں۔ ریاست اتراکھنڈ کی اسی کلومیٹر سرحد نیپال کے ساتھ اور 344کلومیٹر چین کے ساتھ ملتی ہے۔ دریائے کالی کی ابتدا بھی کالاپانی سے ہوتا ہے اور بھارت نے اس دریا کو بھی نئے نقشے میں شامل کیا ہے۔
بھارت کی طرف سے کالاپانی کو نئے نقشے میں شامل کیے جانے کے خلاف نیپال میں مظاہرے شروع ہوگئے ہیں اور مظاہرین نیپالی حکومت سے اس معاملے میں سخت موقف اپنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب نیپال کے وزیر اعظم کے پی اولی نے نیپال کمیونسٹ پارٹی کے یوتھ ونگ کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عوامی جذبات کو بہت کھل کر زبان دی ہے۔ نیپالی وزیر اعظم نے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ نیپال اپنی سرزمین کا ایک انچ بھی کسی کے قبضے میں نہیں رہنے دے گا اور یہ کہ کالاپانی نیپال، تبت اور بھارت کے درمیان سہ فریقی معاملہ ہے۔ بھارت کو وہاں سے اپنی فوج فوری طور پر ہٹالینی چاہیے۔ انہوں نے نقشے کے درستی یا متبادل نقشہ جاری کرنا مسئلہ نہیں نیا نقشہ ابھی پرنٹ ہو سکتا ہے مگر ہم اپنا علاقہ واپس لینا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نیپال اپنی زمین واپس لینے کا اہل ہے۔ اس طرح کشمیر کو ہضم کرنے کا معاملہ بھارت کے گلے پڑتا جا رہا ہے اور نت نئے مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ نیپال کے ساتھ اُبھرنے والے تنازعے کے پیچھے بھی کشمیر پر ہونے والا بھارت کا فیصلہ ہے جسے جواز دینے کے لیے عجلت میں نقشے چھپوائے گئے اور اس عجلت نے چین اور پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کے ایک اور ہمسائے نیپال کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ یوں طاقت کے نشے میں چُور بھارت خود اپنے بُنے گئے جال میں پھنس رہا ہے۔