الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف بیرون ملک سے آنے والی فنڈنگ کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا حزب اختلاف کا مطالبہ منظور کرلیا ہے ۔ یہ کیس 2014 میں دائر کیا گیا تھا اور الیکشن کمیشن نے اپنی روایتی پسند یدگی و ناپسندیدگی کے باعث اسے التوا میں رکھا ہوا تھا ۔ یہ امر حقیقت ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف کے قتل کے مترادف ہے مگر پاکستان میں انصاف میں تاخیر معمولات میں شامل ہے ۔ اگر کسی طرح فیصلہ کر بھی دیا جائے تو بھی فیصلہ محفوظ کرلیا جاتا ہے جس کی مثال شاید ہی مہذب دنیا کی تاریخ سے مل سکے ۔ اگر فیصلہ سنا بھی دیا جائے تو بھی تحریری فیصلہ جاری کرنے کی کوئی مدت مقرر نہیں ہے ۔ جمعرات ہی کو عدالت عظمیٰ نے کراچی کے تین اسپتالوں کو صوبے کے انتظام میں دینے کو غیر قانونی قرار دینے کا تحریری تفصیلی فیصلہ جاری کیا ۔ یہ فیصلہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثا رکی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے لارجر بینچ نے اس سال جنوری میں کیا تھا اور مختصر فیصلہ سنایا تھا تاہم اسے دس ماہ کے بعد جاری کیا گیا ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں انصاف کی فراہمی کی کیا صورتحال ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کا کیس ہو یا شازیہ مری کے خلاف جعلی تعلیمی سند کا یا ایسے ہی اور دیگر کیس ہوں ، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایسے کیسوں کی نہ تو بروقت سماعت کی جاتی ہے اور نہ ہی ان کے فیصلے سنائے جاتے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف غیرملکی فنڈنگ کے کیس میں مجرم ہے یا نہیں ، اس سے بھی بڑا مجرم تو الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے جو گزشتہ پانچ برسوں سے اس کیس کا فیصلہ ہی نہیں کرپایا ۔ اصولی طور پر سب سے پہلے تو الیکشن کمیشن کے ذمہ داروں کا ہی ٹرائل ہونا چاہیے کہ انہوں نے اس اہم ترین کیس کی سماعت اب تک کیوں مکمل نہیں کی اور اب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ فوری طور پر اس کا فیصلہ مطلوب ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اس کی سماعت کی جائے گی ۔مولانا فضل الرحمن کے دھرنوں کے بعد سینہ گزٹ کے ذریعے بہت سی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں ۔ کچھ تو ہے جس کی وجہ سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن دو بار جاری کرنا پڑا ۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا پہلا نوٹیفکیشن جاری ہونے سے قبل آرمی چیف نے صدر عارف علوی سے ملاقات کی تھی جبکہ جمعرات کو بھی نوٹیفکیشن کے دوبارہ اجراء سے قبل آرمی چیف نے وزیر اعظم عمران خان نیازی سے ملاقات کی۔سنجیدہ حلقے پہلے دن سے گزارش کررہے ہیں کہ ملک کے معاملات پسند و ناپسند کی بنیاد پر چلانے کے بجائے میرٹ پر چلائے جائیں ۔ یہ معاملات چاہے الیکشن کمیشن میں انتخابی عذرداری کے ہوں ، عدالتوں میں لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق ہوں یا کسی اعلیٰ عہدے پر تقرری کے معاملات ہوں ، یہ طے کرلینا چاہیے کہ فیصلہ میرٹ پر دیا جائے گا ۔ جس دن یہ فیصلہ کرلیا گیا اور اس پر عمل شروع کردیا گیا ، پاکستان کے سارے ہی معاملات ازخود درست ہوجائیں گے ۔ پھر کسی ابراج گروپ کو کے الیکٹرک کے ذریعے پاکستانی شہریوں کو لوٹنے اور کسی ملک ریاض کو ریاستی زمین پر قبضہ کرکے لوگوں کو بے وقوف بنانے کی ہمت نہیں ہوگی ۔ پھر کوئی اومنی گروپ ملک میں تشکیل نہیں پاسکے گا اور نہ ہی نیب اور پولیس کو لوگوں کو اغوا کرکے تاوان وصول کرنے کی ہمت ہوگی ۔ پھر پاکستانی شہری بھی لاپتا نہیں ہوں گے اوراگر ان کے خلاف کوئی الزام ہوگا تو انہیں عدالت کے ذریعے سزا دی جائے گی ۔ اگر عدالتیں میرٹ پر فیصلہ دے رہی ہوتیں اور خودمختار ہوتیں تو عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت تو حکومت نے دی ہے ، عدالت نے تو صرف طریقہ کار طے کیا ہے ۔ اگر عدالتیں میرٹ پر اور کسی دباؤ کے بغیر فیصلے دے رہی ہوتیں اور ساہیوال جیسے سانحات پر مجرموں کو سزا ہوگئی ہوتی تو جمعرات کو کراچی میں پولیس کو بے گناہ افراد پر فائرنگ کرنے کی ہمت نہ ہوپاتی ۔ اب تو عدلیہ کے فیصلوں کو مرغ باد نما کا درجہ مل گیا ہے کہ سیاسی طور پر کیا اکھاڑ پچھاڑ ہورہی ہے ۔ الیکشن کمیشن نے پراسرار طور پر پاکستان تحریک انصاف کے خلاف بیرون ممالک سے فنڈنگ کے کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے اور جلد از جلد فیصلہ کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے ، اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ عمران خان نیازی کا جن پتوں پر تکیہ تھا اور وہی پتے اب انہیں ہوا دینے لگے ہیں ۔