ایک مرتبہ پھر لکیر پیٹنے کا عمل شروع ہو گیا ہیٓ۔ وزیراعظم عمران خان عدلیہ کو طاقتور اور کمزور کے لیے الگ قانون کا تاثر دور کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں تو چیف جسٹس نے کھل کر جواب دیا ہے کہ وزیراعظم نے خود انہیں (نواز شریف کو) بھیجا ہے وہ احتیاط کریں۔ ہمیں طاقتوروں کا طعنہ نہ دیں ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے۔ یہ وہی کیفیت ہے جو جنرل پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کے موقع پر پیدا ہوئی۔ عدالت نے کہا کہ حکومت نے اجازت دی تھی اور حکومت نے کہا کہ عدالت نے ای سی ایل سے نام نکالا تھا۔ چند روز بحث ہوئی اور پھر خاموشی۔ یہاں تک کہ 28 نومبر کو جنرل پرویز مشرف کیس کے فیصلے کی خبر سامنے آگئی۔ اس کے ساتھ ہی عدالت اور حکومت کے درمیان مباحثہ شروع ہو گیا۔ وزیراعظم نے تو عدلیہ کو تاثر ختم کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن چیف جسٹس نے سارا تاثر ہی بدل دیا۔ ان کا یہ جملہ بڑا معنی خیز ہے کہ ہم نے ایک وزیراعظم کو نااہل قرار دیا اور دوسرے کو سزا دی اور سابق آرمی چیف کا فیصلہ جلد آنے والا ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے وہ 28 کو پتا چلے گا۔ لیکن یہ سوال تو پیدا ہوگیا کہ کیا سابق آرمی چیف کو بھی سزا سنائی جانے والی ہے۔ اس وقت ملک میں عجیب سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے۔ اگرچہ بظاہر مولانا فضل الرحمن خالی ہاتھ اسلام آباد سے چلے گئے اور دھرنے بھی عجلت میں ختم کر دیے گئے لیکن ہر زباں پر عمران حکومت اور وزیراعظم کے جانے کی خبر ہے۔ تاریخیں دی جا رہی ہیں۔ ان ہائوس تبدیلی کو اب زیر بحث نہیں لایا جا رہا۔ کوئی اسے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے جوڑ رہا ہے تو کہیں ان کی جانب سے توسیع لینے سے معذرت کی خبریں چلائی جا رہی ہیں لیکن حکومت کے مخالفین کی متفقہ رائے یہی بن رہی ہے کہ جی کا جانا ٹھہر گیا… اور سب صبح و شام کی خبر کے چکر میں ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کی وجہ ہے۔ اس ہفتے آرمی چیف کی وزیراعظم سے دو ملاقاتیں اور آئی ایس آئی چیف کی ایک ملاقات ہوئی۔ جو معمول کی سرگرمی بھی ہو سکتی ہے لیکن ایک دن آرمی چیف ملتے ہیں اور اگلے دن آئی ایس آئی چیف اور پھر آرمی چیف ملتے ہیں۔ اس کے بعد وزیراعظم کے مخالف ان کے چہرے کے تاثر سے لے کر ہر قسم کی قیاس آرائیاں کرنے میں مصروف ہیں۔ مملن ہے آرمی چیف اور آئی ایس آئی سربراہ کی ملاقاتیں معمول کی ہوں اور ان کا موجودہ قیاس آرائیوں سے کوئی تعلق نہیں لیکن سب اس حوالے سے کسی انہونی کے منتظر ہیں جو پاکستان میں ہوتی رہتی ہے بلکہ معمول ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ کے سامنے قانون کتنا طاقتور ہے اور جو کچھ انہوں نے فرمایا ہے کہ تین ہزار ججوں نے 36 لاکھ مقدمات کے فیصلے کیے ہیں وسائل کے بغیر عدلیہ نے بہت کچھ کیا۔ کوئی ڈھنڈورا نہیں پیٹا، اشتہار نہیں لگوایا۔ چونکہ وزیراعظم نے چیف صاحب کے بیان پر تبصرہ کرنے سے وزرا کو منع کر دیا ہے لہٰذا اس پر تبصرہ بننے کے باوجود احتیاط کا دامن ہاتھ میں سنبھال کر یہ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ جو 36 لاکھ فیصلے ہوئے ہیں کیا ان سے عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو گئے تھے۔ رائو انوار ’’صاحب‘‘ کے مقدمے سے لے کر سانحہ ساہیوال، صلاح الدین، بلدیہ ٹائون فیکٹری، چھٹی کے دن عدالت لگنا۔ بڑے بڑے لوگ مزے میں ہیں کمزور 21 برس سزا بھگت کر بے گناہ قرار پاتا ہے۔ ماتحت عدالت سزا سناتی ہے اعلیٰ عدلیہ بری کرتی ہے۔ ماتحت عدالت سے کبھی سوال نہیں ہوتا کے بے قصور شخص کو سزا دے کر اس کی عمر بھر کی محنت عزت، نوکری سب تباہ کیوں کی۔ کبھی غلط فیصلے دینے والوں کو بھی کٹہرے میں لایا جائے۔ جہاں تک ڈھنڈورا پیٹنے اور اشتہارات دینے کا تعلق ہے تو اس کی ضرورت نہیں۔ ریمارکس کی بہتات ہے اور اخبارات اور ٹی وی چینلز حاضر ہیں۔ اشتہار کی کیا ضرورت۔ وسائل کی بحث میں نہ پڑا جائے تو بہتر ہے۔ اس ملک میں عام آدمی یہی سوچتا ہے کہ اگر وہ بڑی سیاسی جماعت میں نہیں بہت زیادہ مالدار نہیں۔ فوجی نہیں عدلیہ سے تعلق نہیں رکھتا تو آئین پاکستان اس کا محافظ نہیں۔ قومی سطح پر بے یقینی کی کیفیت پورے ملک کو متاثر کرتی ہے۔ وزیراعظم کی اپنی کیفیت کیا ہے۔ وہ اب بھی نواز شریف کی لکیر پیٹنے میں مصروف ہیں اور قوم کو ٹیکس دینے کی ترغیب دے رہے ہیں لیکن ان کی اپنی حالت کیا ہے۔ اپنا ٹیکس کا دس سالہ ریکارڈ دیکھ لیں قوم کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکیں۔ ٹیکس دیئے بغیر ملک نہیں چل سکتا لیکن حکمران عیاشی کی زندگی گزاریں اور ایک لاکھ ٹیکس دیں تو ملک ایسے نہیں چل سکتا۔ رہی بات شہباز، نواز داماد اور سمدھی پر تبصروں کی کہ وہ بھاگا ہوا ہے یہ بھاگا ہوا ہے۔ تو ذرا خود بھی امریکا جا کر مقدمات کا سامنا کریں مسئلہ ایک دفعہ حل کر لیں۔ اب آپ وزیراعظم ہیں قوم کے وقار کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔