آمریت نہ جمہوریت، صرف اسلام

392

جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے اس وقت سے پاکستان میں ایک نئی بحث چھیڑنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے اور وہ بحث یہ ہے کہ پاکستان کے لیے پارلیمانی جمہوری نظام نہیں بلکہ صدارتی نظام کی ضرورت ہے۔ موضوع تو اچھا ہے مگر اتنا تفصیل طلب ہے کہ اسے ایک کالم کی گنجائش کے مطابق سمیٹنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔تفصیل میں جائے بغیر ہم اس بات کی کوشش کریں گے کہ یہ بات سمجھا سکیں کہ اب تک پاکستان میں دوہی قسم کے نظام نافذ رہے ہیں لیکن بد قسمتی سے دونوں ہی بہت بری طرح ناکامی کا شکار ہوئے ہیں۔
مختصراً یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ افراد جو کسی بھی فرد سے کوئی مشورہ کرکے کسی نتیجے پر پہنچنے کے متحمل نہیں ہو سکتے یا یہ کہ ان میں اتنا صبر اور برداشت ہی نہیں ہے کہ اپنی رائے کے سامنے کسی کی رائے کا احترام کر سکیں اور اس بات کا تجزیہ کر سکیں کہ بہت ساری آرا میں سے وہ کون سی رائے ہے جو زیادہ قابل قبول اور عملی طور پر نافذالعمل ہو سکتی ہے، وہ سب کے سب صدارتی نظام کی حمایت میں نظر آئیں گے اور جن کو اللہ نے اتنا صبر، تحمل اور برداشت عطا کی ہے کہ وہ ہرکام کرنے سے پہلے اس بات کا تجزیہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے اس کے ہر ہر پہلو کا نہایت گہرائی کے ساتھ جائزہ لیں یا بہت سارے اختلافات کے درمیان بیچ کی ایک راہ نکال کر آگے کی جانب پیش رفت کے قابل ہو سکیں، وہ سب کے سب آپ کو جمہوریت یا شورائیت کے حامی نظر آئیں گے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو نظام ہائے حکومت کی ایک بڑی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے اور 1947 سے لیکر تاحال مسلسل تجربات پر تجربات ہو رہے ہیں اور اس بات کا جائزہ لیا جارہا ہے کہ عوام کے لیے وہ کون سا نظام حکومت و مملکت ہو سکتا ہے جس سے عوام خوشحال ہو سکیں اور پاکستان ترقی کی راہ پر آگے کی جانب سفر کر سکے۔
مجھے اس بات کا اندازہ تو نہیں کہ ’’گورنر جنرلی‘‘ نظام کو جمہوریت میں شامل کیا جاتا ہے یا آمریت میں لیکن پاکستان کے بانی نے جس عہدے کو اپنے لیا چنا تھا اور جس نظامِ مملکت کو ایک ایسے ملک کے لیے پسند کیا تھا جو اللہ اور اس کے رسول کے نظام کو نافذ کرنے کے وعدے پر بہت جانی و مالی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا، قابل عمل سمجھا۔ ان کے فوراً بعد پاکستان میں جمہوریت کا نفاذ عمل میں آگیا اور لیاقت علی خان ملک کے پہلے وزیر اعظم بنے۔ پھر اسکندر مرزا سے صدارتی نظام کا آغاز ہوا، ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف پاکستان کے صدر کہلائے اور پورے ملک میں نہایت آب و تاب کے ساتھ صدارتی نظام نافذ رہا۔ اسی درمیان ایک عسکری نظام بھی اس ملک میں چلتا رہا جس کو ’’مارشل لائی‘‘ نظام کہا جاسکتا ہے۔ ملک میں انتخابات کے ذریعے منتخب حکومتیں بھی بنائی جاتی رہیں جو کبھی ٹوٹتی پھوٹتی رہیں اور کبھی ہنکائی جاتی رہیں اور اس طرح اس ملک نے کئی نظام ہائے حکومت کو آتے جاتے اور ٹوٹتے پھوٹتے دیکھا لیکن پاکستان کے عوام آج تک اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انہوں نے آمریت میں جمہوریت دیکھی یا جمہوری ادوار میں آمریت نمایاں نظر آئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب جب عرف عام میں آمریت ملک کی ہر بلندی و پستی پر چھائی ہوئی ہوتی ہے تو عوام کو جمہوریت کی اچھائیاں یاد آنے لگتی ہیں اور جب جب منتخب جمہوری حکومتیں ملک کے طول و عرض میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہی ہوتی ہیں تو لوگ سخت گیر حکمرانوں کے ادوار کو یاد کرنے لگتے ہیں۔
اگر پاکستان میں گورنر جنرلی، صدارتی نظام اور مارشل لا کو ’’آمریت‘‘ کی فہرست میں شامل کر لیا جائے اور انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی حکومتوں کو ’’جمہوری‘‘ مان لیا جائے تو دونوں نظام ہائے حکومت میں سب سے زیادہ وقت پاکستان میں ’’صدارتی‘‘ نظام ہی کو ملا ہے جو پاکستان میں اپنی پوری طاقت اور جبروت کے ساتھ نافذ رہی اور کسی بھی قسم کی صدائے اختلاف سننے کی متحمل نظر نہیں آئی۔ یہ بات بھی بہت عجیب ہے کہ جب جب مارشل لائی حکومت آئی اس نے اپنے لیے جس نظام کو پسند کیا وہ ’’صدارتی‘‘ نظام ہی تھا لیکن پاکستان میں آج تک سویلین نے نہ تو اس نظام کو پسند کیا اور نہ ہی کوئی ایسا صدر پاکستان میں آیا جو پارلیمانی نظام کے سب سے بڑے عہدے پر نافذ رہا ہو۔ سویلین نظام میں اب تک پاکستان کا سب سے بڑا حکومتی عہدہ وزارت عظمیٰ کی شکل میں وزیر اعظم کے پاس ہی رہا۔ پاکستان میں خالص آمریت کا دور 42 برسوں سے بھی زیادہ رہا ہے مگر جمہوریت کا دور جو بظاہر 30 برسوں کا ہے، کبھی ’’خالص‘‘ نہیں رہا اور تاحال جمہویت ایسی قوتوں کے زیر نگیں نظر آئی جس کو پاکستان میں کبھی نادیدہ قوت، کبھی خلائی مخلوق اور کبھی اسٹیبلشمنٹ کا نام دیا جاتا رہا ہے۔ 42 سالا صدارتی دور تو وہ ہے جس میں کسی بھی قسم کی کوئی ملاوٹ تھی ہی نہیں لیکن 1990 سے لیکر 2008 تک ایک ایسا صدارتی دور بھی گزرا ہے جس کو ملاوٹ شدہ صدارتی دور بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسا دور ہے جو دنیا کی کسی بھی ریاست میں کبھی نافذ نہیں ہوا ہوگا۔ یہ دور اس جمہوری ادوار کا ہے جب حکومت کا سب سے بڑا عہدہ تو وزیراعظم ہی کے پاس ہوتا تھا لیکن ملک کا صدر کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی اتنا با اختیار تھا کہ جب چاہتا اسمبلیاں توڑ سکتا تھا۔ چنانچہ ہر منتخب ہونے والی حکومت صدر مملکت کے ہاتھوں ٹوٹتی پھوٹتی رہی۔ اس طرح جمہوری دور میں بھی ایک طویل عرصے تک صدارتی نظام ہی نافذ رہا تو بیجا نہ ہوگا۔
اس ساری صورت حال کو سامنے رکھ کر جو بات نہایت قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ آج جو افراد یا مغبچے اس بات کو شد ومد کے ساتھ اٹھا رہے ہیں کہ پاکستان کا نظام صدارتی ہونا چاہیے تو ان سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کو ایک طویل صدارتی دور نے اب تک کیا دیا؟۔ ایسے صدارتی ادوار جو امریکا کی طرح سویلین بھی نہیں تھے کہ وہ قوت نافذہ نہ رکھتے ہوں کیونکہ ایسے سارے ادوار عسکری ادوار تھے جن کے پاس پورے ملک کی طاقت تھی اور وہ آج بھی اتنے مضبوط ہیں کہ کوئی بھی ’’سول‘‘ طاقت ان کا مقابلہ کرنے کی اہل نہیں ہو سکتی۔ ایسی حکومتیں بھی پاکستان کو آگے لیجانے کے بجائے بہر زاویہ پیچھے کی جانب لیجاتی رہیں تو ہم کس توقع پر یہ امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں کہ پاکستان میں اسی صدارتی نظام کے پلٹ آنے کی وجہ سے ترقی و خوشحالی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ یہ وہی ادوار ہیں جس کے موجود ہوتے ہوئے مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکلا۔ پاکستان میں کلاشنکوف کلچر عام ہوا، کشمیر، افغانستان اور پاکستان ایک خلجان میں مبتلا ہوئے اور پاکستان کا اپنا امن و سکون تہہ و بالا ہوا۔
موجودہ حکومت خود یہ بات کہتی ہے کہ پاکستان میں پہلی بار تمام ادارے ایک پیج پر ہیں۔ گوکہ یہ بات ابھی معما ہی ہے کہ کون کس کے پیج پر ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سب ایک ہی پیج پر ہیں۔ اگر اس بات کو سچ مان لیا جائے تو تمام اداروں کے ایک پیج پرہونے کے باوجود بھی بھارت کی یہ جرات کیسے ہورہی ہے کہ وہ کشمیر پر قبضہ کر لے اور حکومت پاکستان اپنی افواج کو اس بات کا حکم نہ دے سکے کہ وہ پیش قدمی کرے؟۔
ساری باتوں کا اگر خلاصہ نکالا جائے تو وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں کے لیے اللہ نے نہ تو صدارتی نظام کو پسند کیا ہے اور نہ ہی مغربی جمہوریت کو۔ اللہ نے صاف صاف کہا ہے کہ اللہ کے نزدیک ’’دین اسلام‘‘ ہی پسندیدہ دین ہے اور ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام نہ تو بادشاہت کا حامی ہے، نہ کسی صدارتی نظام کو پسند کرتا ہے اور نہ ہی کسی کا وزیراعظم کہلانا اسے گوارہ ہے۔ خلافت ہی وہ نظام ہے جو اللہ کو پسند ہے اور پاکستان کی خاطر جو قربانیاں دی گئیں وہ اسی نظام کے نافذ کرنے کے وعدے پر دی گئیں، اس لیے جب تک پاکستان میں وہی نظام نافذ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک یہ خیال کرنا کہ پاکستان میں امن نافذ ہو سکے گا اور اللہ کی رحمتوں کی برسات ہونے لگے گی بالکل غلط سوچ ہے۔ مختصر یہ پاکستان کی بقا اسی میں ہے کہ اپنے عہد کی جانب پلٹا جائے بصورت دیگر اس کے اجزائے ترکیبی کسی وقت بھی بکھر سکتے ہیں۔