نیب کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ اب ہوا کا رخ بدل رہا ہے اوراب اس شکایت کا بھی ازالہ ہوجائے گا کہ احتساب یکطرفہ نظر آتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب دیکھنا ہوگا کہ تیس پینتیس برس میں کیا کرپشن ہوئی اور گزشتہ بارہ چودہ ماہ میں کیا کرپشن ہوئی ۔ نیب کے سربراہ نے یہ بیان ایسے موقع پر دیا جب این آر او نہیں دیا جائے گا، کوئی ڈیل نہیں ہوگی نہ ڈھیل دی جائے گی کی گونج میں نوازشریف لند ن پہنچے اور اس کے ساتھ ہی حزب اختلاف کی رہبر کمیٹی نے ملک بھرمیں جاری دوستانہ دھرنوں کو بھی فوری طور پر ختم کرنے کا اعلان کردیا ۔ دھرنوں کے منتظم اور روح و رواں مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ نہ تو وہ ویسے ہی اسلام آباد دھرنے کے لیے گئے تھے اور نہ ہی وہ ویسے ہی واپس آگئے ہیں ۔ اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے کے لیے کیا سودے بازی ہوئی ، اس بارے میں عمران خان نیازی کے اقتدار میں شراکت دار اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مذاکرات کرنے والے چودھری پرویز الٰہی کہتے ہیں کہ کچھ معاملات طے تو ہوئے ہیں مگر وہ اسے افشا نہیں کریں گے کہ یہ امانت ہے ۔ اسلام آبادمیں دھرنا جس دوستانہ ماحول میں دیا گیا اور پھر اس کے بعد چاروں صوبو ں میںمختصر وقت کے لیے روزانہ جو دھرنے دیے جاتے رہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طاقت کے منبع اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان کچھ نہ کچھ تو طے ہوا ہے ۔ یہ سارے واقعات اشارہ کررہے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں تبدیلی کی سرگوشیاں کسی حد تک درست ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن کے دھرنوں کے نتیجے میں یقینی فائدہ شریف خاندان کو تو پہنچا ہی ہے ۔ اندازہ ہے کہ زرداری اینڈ کمپنی بھی جلد ہی اس سے فیضیاب ہوگی ۔دھرنوں کا ماسٹر مائنڈ کون تھا اور اس کے سہولت کار کون کون تھے ، کیا یہ دھرناکرایے پر دیگر قوتوں نے حاصل کیا تھا جس کے نتیجے میں باقی کھلاڑیوں کو فائدہ پہنچا، اس بارے میں سوشل میڈیا پر بھی بہت کچھ کہا جارہا ہے اور سینہ گزٹ بھی چل رہا ہے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس سے ملک اور قوم کو کیا فائدہ پہنچے گا ۔ کیا اقتدار کی کرسی پر کٹھ پتلی کی تبدیلی سے ملک کے معاشی حالات ، داخلی صورتحال اور خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی آئے گی یا یہ تبدیلی محض چہروں کی تبدیلی تک محدود رہے گی ۔ آثار بتا رہے ہیں کہ معاشی حالات ، داخلی صورتحال اور خارجہ پالیسی کے محاذ پر کسی بھی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں کہ اب بھی یہ تینوں معاملات سلیکٹروں کی منشاء و مرضی کے تحت ہی چلائے جارہے ہیں ۔ خاص طور سے معاشی حالات اور خارجہ پالیسی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی امید رکھنا ایسے ہی ہے جیسے مغرب سے سورج طلوع ہونا ۔ملک میں خراب معاشی حالات آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی ٹیم کی املا کرائی گئی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں ۔ یہ عالمی طاقتوں کی مرضی ہے اور اس میں سلیکٹر بھی بے بس ہیں کہ انہیں بھی اپنا اقتدار عزیز ہے ۔ اسی طرح پاکستان کی خارجہ پالیسی خصوصی طور پر کشمیر پالیسی بھی آزاد نہیں ہے ۔ یہ بھی عالمی کھلاڑیوں کی جانب سے املا کرائی گئی ہے جس پر سلیکٹروں اور سیاستدانوں سب نے صاد کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے تمام تر اختلافات کے باوجود سارے ہی سیاستداں اور سلیکٹر سب کے سب ایک صفحے پر ہیں ۔ اس بارے میں کہیں پر بھی اور کسی بھی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ کرتارپوربارڈرکھولنے کا معاملہ ہو یا بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی، ہر طرف ایک جیسی ہی سوچ ہے ۔ کیا ہی بہتر ہو کہ اب اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے بجائے ایک ایسی ٹیم اقتدار میںلائی جائے جو پاکستان کے مفاد میں سوچے ، کرپشن سے پاک ہو اور پاکستانیوں کے مستقبل کی تعمیر کا وژن رکھتی ہو۔ پاکستان میں اس وقت یہ صورتحال پیدا کردی گئی ہے کہ نہ تو کوئی ریٹائرڈ چیف جسٹس ، نہ ہی اقتدار سے محروم سیاستداں اور نہ ہی آرمی کا ریٹائرڈسربراہ پاکستان میں رہنے پر راضی ہے ۔ جیسے ہی یہ سب ریٹائر ہوتے ہیں ، کسی اور ملک کی قومیت تھامتے ہیں اور ملک کو خدا حافظ کہہ دیتے ہیں اور اس کے بعد جب ان کو کوئی منفعت بخش عہدہ مل جائے تو قوم کے درد میں مبتلا یہ فوری طور پر وطن واپس پہنچ جاتے ہیں ۔ ان سب کا رہن سہن ان کی آمدنی سے زاید ہوتا ہے اور آمدنی سے زاید بنائے گئے اثاثے عمومی طور پر ملک سے باہر عرب امارات میں یا پھر یورپ ، آسٹریلیا ، امریکا ، ملائیشیا وشمالی امریکا وغیر ہ میں موجود ہوتے ہیں جہاں پر یہ اور ان کی آئندہ نسلیں چین کی بانسری بجاتے ہیں ۔ اصولی طور پر جس طرح سے سیاستدانوںاور بیوروکریسی کے چند افسران کے خلاف آمدنی سے زاید اثاثے بنانے کی تحقیقات ہوتی ہیں بالکل اسی طرح فوج اور عدلیہ کے سارے ذمہ داران کے خلاف بھی ملک میں اور باہر اثاثے بنانے کی تحقیقات کی جانی چاہییں اور ان سے ان اثاثوں کو بنانے کے لیے ذرائع آمدنی کے بارے میں بھی دریافت کیا جانا چاہیے ۔ جس دن طاقت کے ان اصل ستونوں میں کی جانے والی کرپشن پر سوال کرلیا گیا ، اسی دن ملک میں ہر طرح کے حالات خود بخود درست ہوجائیں گے ۔نہ تو کسی کو آئی ایم ایف یا عالمی بینک سے املا لینے کی ہمت ہوگی اور نہ ہی ملک میں انصاف کے برائے فروخت ہونے کی پھبتیاں کسی جائیں گی ۔ سب کو بلاامتیاز اور بروقت انصاف ملے گا ۔ سلیکشن کا طریقہ کار ختم ہوجائے گا اور عوام کے ووٹوں سے منتخب کیے جانے والے ہی مقتدر ہوں گے ۔