غریبوں کو اوپر اٹھانے کا ٹیکس

580

وزیر اعظم عمران خان نیازی نے غربا کی مدد کے نام پر فرمایا ہے کہ وہ ٹیکس لگا کر غریبوں کو اوپر اٹھائیں گے ۔ پاکستان تحریک انصاف جب سے برسراقتدار آئی ہے ، یہ امر ریکارڈ پر ہے کہ مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے ، صنعتیں بندہو ئی ہیں اور بے روزگاری نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے انتخابی تقاریر میں ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے اور پچاس لاکھ گھر تعمیر کرکے بے گھر لوگوں کو دینے کے وعدے کیے تھے مگر ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ایک کروڑ لوگ مزید بے روزگار ہوگئے ۔ نئے گھر تو کیا تعمیر ہوتے ، نجی شعبے میں جو تعمیرات جاری تھیں وہ بھی منجمد ہوکر رہ گئیں ۔ مہنگائی میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کے ساتھ ساتھ جنرل سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں میں زبردست اضافہ ہے ۔ عمران خان مہنگائی کی ان وجوہات کو تو کیا ختم کرتے ، انہوں نے مزید ٹیکس لگانے کا عندیہ دے دیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب معیشت کا پہیہ ہی نہیں گھوم رہا اور لوگوں کے پاس روزگار ہی نہیں ہے تو وہ کس سے ٹیکس وصول کریں گے ۔ عمران خان نے عجیب و غریب طرز عمل اختیار کیا ہوا ہے کہ پہلے اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگوں کو بے روزگار کرو ، انہیں نان شبینہ سے محتاج کردو اور پھر لنگر خانے کھولنے کا اعلان کردو ۔ ستم بالائے ستم یہ لنگر خانے بھی محض اعلان اور افتتاح تک ہی محدود رہے ۔ افتتاح بھی ایک فلاحی تنظیم سیلانی کے لنگر خانے پر کیا گیا اور سرکار نے اس سلسلے میں کہیں پر کچھ بھی نہیں کیا ۔ معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ملک میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے تو ٹیکسوں کی تعداد کو کم سے کم کرکے ان کی شرح کو بھی کمترین سطح پر لائیں ۔ اس کے علاوہ ٹیکس جمع کرنے کے نظام کو بھی سادہ ترین بنائیں ۔ اس کے برعکس وزیر اعظم عمران خان نیازی کی اپنی منطق ہے کہ ٹیکس کی شرح کو مسلسل بڑھاتے چلے جاؤ بھلے اس کے نتیجے میںٹیکس دہندگان کی تعداد کم ہوجائے ۔ عمران خان نیازی کے مشیر عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے حاضر سروس ملازمین ہیں جن کا مقصد پاکستان کو ایک ناکام ریاست میں تبدیل کردینا ہے ۔ بدقسمتی سے عمران خان یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کی پالیسیاں ملک کے مفاد میں نہیں ہیں اور یہ پالیسیاں ملک کو ترقی کے بجائے ایک ناکام ریاست کی طرف لے کر جارہی ہیں ۔ عمران خان کو تو سیاست و حکومت کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کے پاس اس طرح کا کوئی وژن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انگلیاں عمران خان نیازی سے زیادہ ان کے سلیکٹروں پر اٹھ رہی ہیں کہ کم از کم عمران خان کو اچھی ٹیم ہی جمع کرکے دے دی ہوتی ۔ عمران خان کی صرف معاشی ٹیم ہی ملک دشمنی کا ثبوت نہیں دے رہی بلکہ خارجہ، داخلہ ، تعلیم سمیت ہر شاخ کا ایک جیسا ہی منظر ہے ۔ وزارت خارجہ کی کارکردگی کو سقوط کشمیر کے پس منظر میں بہتر طور پر جانچا جاسکتا ہے ۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کی کارکردگی کا افغانستان، عراق اور فلسطین کی وزارتوں سے ہی تقابل کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان ان جنگ زدہ اور کمزور ممالک سے بھی کم تر درجے میں موجود ہے ۔ موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی آئندہ وزیر اعظم کے امیدوار ہیں ۔ ان کی موجودہ کارکردگی اور عالمی کھلاڑیوں کے سامنے ان کی جی حضوری دیکھ کرخدشات ہیں کہ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہوجائیںگے ۔ عمران خان کی کارکردگی جو بھی ہو مگر ان کے سلیکٹروں کو سوچنا چاہیے کہ اس سے ان کی اپنی نیک نامی پر دھبا آرہا ہے۔