رام مندر سے رام راج تک

489

بابری مسجد کیس میں بھارتی عدالت عظمیٰ نے حسب توقع و روایت افضل گورو کیس کی طرح ’’عوامی ضمیر‘‘ کے آگے سپر ڈال دی۔ عدالت عظمیٰ نے مسجد کا اصل مقام ہندوئوں کے حوالے کرکے ہندوئوں کا ضمیر مطمئن کر دیا اور مسلمانوںکا ضمیر مطمئن کرنے کے لیے انہیں کسی نمایاں مقام پر پانچ ایکٹر زمین دینے کا حکم دیا۔ اب اس فیصلے میں کون سے ’’ضمیر‘‘ کے حقیقی اطمینان کا خیال رکھا گیا ہے اس میں دورائے نہیں۔ صاف ظاہر ہے اطمینان چہروں، حرکات وسکنات اور لفظوں سے جھلکتا ہے اور عدم اطمینان بھی زبان سے نہ بولے تب بھی اور ندامت وبیزاری چہروں سے عیاں ہوتی ہے۔ ان دو ضمیروں کی علامتوں کے طور پر اگر دوشخصیات کو چنا جائے تو صورت حال پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے۔ عدالت نے جس ہندو ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے فیصلہ سنایا اس کی علامت آر ایس ایس کے فکری راہنما کے این گوئند اچاریہ کو مانا جائے تو ان کا بے ساختہ تبصرہ ہے کہ فیصلے کے بعد ملک میں سماجی ہم آہنگی برقرار رکھی جائے تاکہ اب ملک رام مندر سے رام راج کی طرف بڑھ سکے۔ فریق ثانی یعنی مسلمانوں کے ضمیر کے اطمینان کا خیال رکھنے کا دعویٰ کیا گیا تو اس ضمیر کی علامت اگر رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کو مان کر جائزہ لیا جائے تو ان کا تبصرہ تھا کہ ہم عدالت کے احترام میں کچھ بولیں گے نہیں مگر بھارت اب ایک ہندو ریاست بننے جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ شعر بھی پڑھا
سنو اک بات کہنا چاہتا ہوں
سپریم کورٹ کے فیصلے پر خاموش رہنا چاہتا ہوں
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے فکری قائد کا تبصرہ حقیقت میں عدالت کے اس فیصلے بلکہ مستقبل میں آنے والے تمام فیصلوں پر بھاری بھی ہے اور ان سب فیصلوں کا خلاصہ اور جست بھی ہے۔ حقیقت میں بھارت میں ہندومت کے احیاء کی تحریک اب رفتہ رفتہ اپنے عروج کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ تحریک بہت سے نشیب وفراز سے گزر کر اب عملی شکل میں ڈھلنے کے مراحل میں داخل ہو رہی ہے۔ جہاں سہولت ہوگی یہ رکاوٹوں اور اڑچنوں کو نگلتی چلی جائے گی اور جہاں مزاحمت ہوگی وہاں کیا ہوتا ہے؟ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ سردست بیرونی سطح پر پاکستان اس راہ میں واحد مزاحم قوت نظر آتی ہے اور اسی لیے اس کمزور سوشل اسٹرکچر کے حامل میں بہت سے عذاب اُبل پڑے ہیں اندرونی سطح پر مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر ہندوتوا فلسفے کے سراپے کے اندر ایک پھوڑے کی صورت موجود تھی پانچ اگست کو اپنے تئیں اس رکاوٹ کو دور کرنے کا سامان کردیا گیا۔ ہندوتوا اور ہندو راشٹریہ ہندومت کے احیاء اور بالادستی کی سوچ کا نام ہے اور یہ سوچ مسلمان اقتدار کے دوران اور انگریز راج کے دوران حالات زمانہ کے ہاتھوں دب تو گئی تھی مگر ختم نہیں ہوئی۔ اسی سوچ نے اس مسلمانوں کی الگ ریاست کے اس تصور کو حقیقت کا رنگ دیا تھا جسے ہم اب مطالعہ پاکستان میں لکھی گئی فرضی داستان اور کتابی بات کہنے لگے تھے۔ ہمارے خیال میں برصغیر میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیا کرتے تھے یہ تو انگریز نے فسادات کا بیج بو کر دونوں کو الگ گیا۔ حقیقت میں انگریز نے دونوں کو الگ نہیںکیا بلکہ ایک اپنے اقتدار میں جوڑے رکھا تھا۔ گاندھی اور نہرو کے پہلو بہ پہلو قائد اعظم، علامہ اقبال، مولانا ابوالکلام آزاد اور بہت سے مسلمان راہنمائوں کا کھڑا ہوا انگریز اقتدار کی مخالفت کے ایک نکتے کے باعث ممکن ہوا تھا۔ مودی کا شکریہ کہ اس نے مطالعہ پاکستان کو افسانہ اور مطالبہ پاکستان کو نعرہ ٔ مستانہ قرار پانے سے بچالیا۔
تقسیم برصغیر کے وقت بھی ہندو مت کے احیاء اور غلبے کی سوچ ایک توانا شکل میں موجود تھی اور سردار پٹیل کی شکل میں موجود ہی نہیں موجزن بھی تھی وہ پوری قوت کے ساتھ ہندوستان کو ہندو راشٹریہ کی منزل کی طرف لے جانا چاہتے تھے اور اسی لیے وہ آئین ہند میں کشمیر کی خصوصی شناخت کے سخت گیر ناقد تھے اور ’’ایک ودھان ایک پردھان‘‘ مہم حقیقت میں انہی کی سوچ وفکر کی عکاس تھی مگر معاملات سنبھالنے کے لیے نہرو جیسے بظاہر سیکولر حقیقت میں کٹر برہمن قیادت کو منظر پر رکھا گیا۔ پاکستان کی صورت میں الگ ہونے والی آبادی کے دل لبھانے اور رجھانے کے لیے وہ بھارت کی سیکولر جمہوریہ شبیہ بنانے میں کامیاب رہے مگر اس سے ہندو راشٹریہ کی جانب بھارت کا سفر رک نہ سکا۔ جمہوریہ سیکولر ہند بھی اپنی طرز کا اسلامی ’’جمہوریہ پاکستان‘‘ ہی تھا گویا کہ دونوں نے محض نام اپنانے کا تکلف ہی کیا حقیقت میں دونوں نے اپنے ان ناموں کی لاج نہیں رکھی۔ بھارت میں جو کچھ جمہوریت اور سیکولر ازم کے ساتھ ہوا کم وبیش وہی ہم نے اسلام کے ساتھ کیا۔ اس طرح سیکولرازم بھارت کا ایک خالی ڈھول ہی رہا جو اس وقت تک پوری قوت سے بجتا رہا جب تک کہ انہیں یقین رہا کہ پاکستان کسی بھی وقت پکے ہوئے پھل کی مانند واپس ان کی جھولی میں گرسکتا ہے۔ جب سقوط مشرقی پاکستان کے باوجود اور پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی طرف ہونے والے سفر نے اس بات کو ناممکن بنا دیا تو بھارت کی ہندو اشرافیہ نے مایوس ہو کر سیکولرازم کا خول اور ٹریڈ مارک کھرچ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ باقی سارا سفر کسی وضاحت اور بیان کا محتاج نہیں۔
بھارتیا جنتا پارٹی اس سوچ کے مختلف دھاروں کو ایک دریا بنانے کا نام ہے۔ اس میں مختلف ناموں کی موجیں آتی اور گزر جاتی رہیں اور مودی اس وقت سوچ کی اس لہر پر سوار ہوا جب یہ بھارت کی فیصلہ ساز حکمران اشرافیہ اور فوجی ہیئت مقتدرہ پر اپنا رنگ قائم کر چکی تھی۔اب اگلے تمام مراحل میں بھارت تیزی کے ساتھ ہندو راشٹریہ، رام راج اور ہندوتوا کی شاہراہ پر اپنا سفر جاری رکھے گا۔ اس سفر میں مسلمانوں ہی نہیں دوسری اقلیتوں کے لیے خیر کی کوئی خبر نہیں اچھا ہوا پاکستان نے ایک اور مضبوط مگر مجروح اقلیت سکھوں کو تازہ ہوا میں سانس لینے کے لیے ایک کھڑکی فراہم کر دی۔ بھارت نے جس راہ پر آغاز سفر کیا ہے اس میں واپسی کا تصور بھی محال ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس سفر میں کون سی اقلیت متعصب ہندو اکثریت کے ساتھ کہاں تک چلتی ہے؟۔ کسی سادھو، پنڈت، جوتشی اور سنیاسی کے بجائے وقت اس سوال کا خود ہی جواب دیتا چلا جائے گا۔