فرانس کے ادارے پولیٹیکل کریٹویٹی فاؤنڈیشن کی ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان پر روسی حملے کے بعد سے اب تک گزشتہ چالیس برسوں میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کے 91 فیصدسے زاید متاثرین مسلمان ہیں ۔ فرانسیسی تنظیم نے تو محض دہشت گردانہ حملوں کی بات کی ہے ، اصل بات تو یہ ہے افغانستان پر روسی حملے کے بعد سے اب تک صرف اور صرف مسلمان ہی نشانہ ہیں ۔ اس رپورٹ میں روس ، امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی مسلم ممالک پر کی جانے والی فوج کشی کا تذکرہ نہیں ہے کہ اسے دنیا بھر میں کوئی بھی دہشت گردی کی کارروائی نہیں سمجھتا ۔ اسی طرح میانمار حکومت کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی ، اسرائیل کے فلسطین اور لبنان میں مسلمانوں پر مسلسل حملوں ، مقبوضہ کشمیر اور پورے بھارت میں سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کے قتل عام یا بوسنیا میں مسلم آبادی کے قتل عام کو بھی کوئی دہشت گردی کے زمرے میں نہیں ڈالتا ۔ اگر ان کارروائیوں کو بھی شمار کرلیا جائے تو صورتحال کی ہولناکی زیادہ واضح ہوجاتی ہے ۔ اس سب کے باوجود المیہ یہ ہے کہ پوری دنیا میںستم رسیدہ مسلمانوں ہی کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے ۔ان ہی کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں اور انہیں ہی مزید ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ کوئی روسی ، امریکی ، یورپی ، اسرائیلی ، بھارتی اور میانمار کے سربراہوں یا ان کی افواج کو دہشت گرد قرار نہیں دیتا ۔ شمالی امریکا میں مسلمانوں کی تنظیم اکنا کے اعداد و شمار کے مطابق نائن الیون کے بعد سے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار 93 فیصد سے زاید مسلمان بے گناہ ثابت ہوئے ۔ بقیہ کے بارے میں بھی شبہات موجود ہیں کہ انہیں اس میں ملوث کیا گیا ہے ۔ یہ اعداد و شمار انتہائی خوفناک ہیں کہ گزشتہ چالیس برسوں سے محض ایک مذہب کے ماننے والوں کے خلاف نسل کشی کی مہم شروع کی ہوئی ہے ۔ اس میں دنیا کے وہ سارے ممالک پیش پیش ہیں جو مہذب ہونے کے دعوے دار ہیں ۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق ان ہی مظلوم مسلمانوں کو پوری دنیا میں ظالم اور دہشت گرد قرار دے کر پیش کیا جاتا ہے ۔ گزشتہ چالیس برسوں کے واقعات کو دیکھ کر کوئی بھی شخص کہہ سکتا ہے کہ اصل دہشت گرد کون ہیں ۔ جب دنیا امن و آشتی کے ساتھ رہ رہی تھی تو اس وقت روس نے افغانستان پر حملہ کرکے دہشت گردی کا آغاز کیا اور پھر اس کے بعد طے شدہ منصوبے کے تحت امریکا اور پورا یورپ اس دہشت گردی میں شامل ہوگئے۔ اصولی طور پر دہشت گردی کا مقدمہ ان سارے ممالک کے متعلقہ سربراہوں کے خلاف چلنا چاہیے اور انہیں ان کے کیے کی قرار واقعی سزا دی جانی چاہیے ۔ اس دہشت گردی کے نتیجے میں متاثر ہونے والے ممالک اور افراد کے نقصان کی تلافی کی ذمہ داری بھی ان ہی ممالک پر عاید ہوتی ہے جنہوں نے دہشت گردی کا یہ بازار گرم کیا ہے ۔