کشمیر کی جنگ ہر فورم، ہر محاذ پر لڑنا ہوگی
ریاست جموں و کشمیر کے مسلمان طویل عرصے سے ہندوستانی سامراج کے انسانیت سوز مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں، حتیٰ کہ اُن کا پورا جسم لہو لہو اور زخموں سے چور ہے، لیکن سلام ہے اُن شہسواروں کو جن کے ایمان اور جدوجہد آزادی کے عزم میں ذرّہ برابر بھی کمی نہیں آئی۔ بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ حصولِ آزادی کی لگن مزید بڑھتی جارہی ہے۔ تحریک آزادی کشمیر کا بڑھتا ہوا جوش و ولولہ ایک طرف بھارتی ظلم و استبداد کے تمام ہتھکنڈوں کی ناکامی کا ثبوت ہے دوسری جانب اس عہد برمہر تصدیق بھی ہے کہ کٹ جائیں گے، مرجائیں گے مگر ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ ان کے جذبے کمزور ہونے کے بجائے بلند ہوتے جارہے ہیں۔ جموں و کشمیر کا بچہ بچہ آزادی کا علم بلند کیے برسرپیکار ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی حکومتوں کی غلطیوں، کمزوریوں اور عالمی سطح پر اور سفارتی ناکامیوں نے پاکستانی قیادت سے مایوسی و بے اعتمادی نے اضافہ کیا ہے۔ کاش حکومت پاکستان ’’مولانا مودودی‘‘ کی بات مان لیتی تو آج کشمیر پاکستان کا حصہ ہوتا۔ دنیا کو کشمیر میں حقوق پامال نظر نہ آنا افسوسناک ہے۔ گودواسپور کو بھارت میں شامل کیا گیا تھا۔ مولانا مودودی نے اُس دن اُس وقت کے وزیر اعلیٰ افتخار ممدوٹ کو مشورہ دیا تھا کہ اگر حکومت پاکستان کشمیر کو بچانا چاہتی ہے تو ایک دن کی تاخیر کیسے بغیر کشمیر میں فوج داخل کردے، کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے اگر کشمیر بھارتی فوج کی موجودگی جائز ہے تو پاکستانی فوج کی موجودگی ناجائز کیسے ہوسکتی ہے؟۔ کشمیر کی موجودہ صورت حال اس بات کی غمازی کرتی نظر آرہی ہے کہ کشمیر کے حالات اب فیصلہ کن موڑ پر آگئے ہیں، غلامی کی تاریک رات ڈھلنے کو ہے، کشمیری قوم نے تو اپنا فیصلہ سنادیا ہے وہ ڈرنے والے ہیں نہ تھکنے والے، اپنا حق حاصل کرنے کے لیے ہر حد سے گزر جائیں گے مگر یہ دیکھنا ہے کہ حکومت پاکستان اس تاریخی فیصلہ کن موڑ پر کشمیریوں کے لیے کیا کرتی ہے کیوں کہ یہ تاریخی اتنی آسانی سے نہیں چھٹے گی۔ دشمن ہر طرف سے وار کررہا ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات ابتر سے ابتر ہورہے ہیں۔ تیسرا ماہ اس کرب میں مبتلا و آزمائش میں داخل ہوگیا ہے۔ پاکستانی قوم کا فرض ہے کہ ہم چاہے کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں ہوں، کشمیر کا مسئلہ ہر سطح پر اُجاگر کریں، اگر اور کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم سوشل میڈیا کے ذریعے تو معصوم و مظلوم کشمیریوں کے لیے آواز ضرور اٹھائیں۔ عالمی ویب سائٹس پر مضامین بھیجیں، عالمی اخبارات، رسائل و جرائد پر کشمیر کے حوالے سے خبروں، تبصروں، تجزیوں پر رائے دینا شروع کردیں، اس کے علاوہ تحقیق کریں کہ جو فورمز کشمیر کے حوالے سے بھارتی اجارہ داری کے زیر اثر ہیں اُن کا خیال کیا ہونا چاہیے۔ اپنے غیر ملکی دوستوں کو کشمیر کے مسائل اور بھارتی جارحیت و سفاکیت سے آگاہ کریں۔ عالمی قوانین کے حوالے تلاش کریں، کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو ان قوانین کے تحت سامنے لائیں اور سب سے بڑھ کر دعائوں میں اُن کا ساتھ نہ چھوڑیں۔ اور ہرگز نہ بھولیں ہر لمحے گڑگڑا کر دعا کریں۔
عشرت جہاں، شادمان
اہل کشمیر کے لیے ٹھوس قدم اُٹھائیے
کشمیر میں کرفیو کو تین ماہ کا عرصہ ہوگیا ہے ایسا لگتا ہے کہ دنیا اور خاص طور پر امت مسلمہ اعداد و شمار کا انتظار کررہی ہے کہ کرفیو کے دوران کتنی شہادتیں ہوئی ہیں، مسلم ممالک کا فوجی اتحاد بھی خاموشی سے تماشا دیکھ رہا ہے۔ سوچنا چاہیے اس سے پہلے جب دنیا میں عراق پر بوسنیا پر مصر میں اور دوسرے دیگر ممالک میں مسلمان مشکل میں تھے تو کون سی دنیا نے مدد کی تھی جو اب ان سے مدد کی درخواست کی جارہی ہے اس وقت تو صرف ان لوگوں کے بارے میں سوچیے جو اپنے ہی گھروں میں قید کردیے گئے ہیں ان کے کھانے پینے، ادویات کچھ بھی نہ بچا ہوگا، چھوٹے بچے، بوڑھے، جوان سب کیا کررہے ہوں گے، بیمار کو ڈاکٹر کے پاس جانے تک کی اجازت نہ دی جارہی ہو، یہ وہ وقت ہے جب کشمیری پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کب ہماری مدد کو پاکستانی فوج آتی ہے اور ہمیں اس قید سے رہائی دلاتی ہے۔ خدارا کشمیریوں کو مودی کی قید سے نکالنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھائیے۔
پروین آغا
کیماڑی میں گندگی و غلاظت کا ڈھیر
کیماڑی میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور نالے کے گندے پانی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا، جس کی وجہ سے بہت سی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں۔ گندے پانی کی وجہ سے نمازی جن میں بزرگ شامل ہیں مسجد تک نہیں جاسکتے، بیمار خواتین اسپتال نہیں جاسکتیں، بچوں کو اسکول پہنچنے میں مشکل ہوتی ہے۔ ہر چوک، ہر گلی، ہر روڈ، ہر محلے میں آپ کو کچرے کے ڈھیر اور گندا پانی ملے گا۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ ان کچرے کے ڈھیروں اور نکاسی آب کے نظام کو ٹھیک کیا جائے۔
سمیر خان، کیماڑی