واضح کرو کہ اصلی ہو یا نسلی

667

جب سے کرتارپور راہداری کھلی ہے سوشل میڈیا پر ایک اور بحث کا اضافہ ہو گیا ہے۔ وہ تمام لوگ جو اس راہداری پر بہت خوش ہیں، وہ اس کو پاکستان کی ترقی کے لیے ایک بہت بڑا سنگِ میل بلکہ سونے کا پہاڑ قرار دے رہے ہیں اور جو اس کے مخالفین ہیں وہ جن جن خدشات و خطرات کا اظہار کر رہے ہیں ان کو سامنے رکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اس راہداری کا کھل جانا ایسا ہی ہے جیسے یاجوج ماجوج کے حملوں سے بچنے کے لیے جو دیوار تعمیر کی گئی تھی اس کا گرجانا۔ معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو ملکوں کے درمیان آنے جانے کی جتنی بھی آزادی دی جائے اس سے دو طرفہ تجارت فروغ پاتی ہے، دوریاں کم ہوتی ہیں ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ دیواریں جو غلط فہمیوں کی بنیاد پر یا علاقائی مفادات کی خاطر کھڑی کی جاتی ہیں، وہ سب کی سب منہدم ہوجاتی ہیں اور کئی معاشرے تمام تر مذہبی، علاقائی، نسلی اور لسانی تفریق کے باوجود ایک دوسرے ازدواجی تعلقات تک استوار کرتے نظر آنے لگتے ہیں۔
اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو پاکستان میں ایسی تفریق بہت شدت کے ساتھ موجود تھی لیکن صوبائی، علاقائی، لسانی اور نسلی دوریاں، جو کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئیں تھیں اب وہ اس حد تک نہیں پائی جاتیں جو کبھی ہوا کرتی تھیں۔ شاہراہوں اور سفری سہولتوں نے بہت ساری تہذیبوں کو آپس میں ایک دوسرے کو قریب کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں آنے جانے اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں سفر کرنے کی وجہ سے مقامی سطح پر پھیلائی جانے والی غلط فہمیاں بڑی حد تک دم توڑ چکی ہیں۔ ان سارے تجزیوں کے باوجود بھی کرتار پور راہداری کا کھل جانا ان پیرایوں میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دوتہذیبوں کو آپس میں ملانے یا ان میں قربتیں بڑھانے کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ یہ فعل ایسا ہی ہے جیسے ان سانپوں اور بچھوؤں کے بلوں کو کھول دیا جائے جو زخمی ہوں۔ زخمی سانپ اور گھائل موزی جس درندگی کے ساتھ پلٹ کر حملہ کرتے ہیں اس کا تصور نیولے اور گلہریاں بھی نہیں کر سکتیں۔
1971 شاید ہم بھول چکے ہیں جب ان ہی موزیوں نے پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی اور خطہ زمین کو ڈسا تھا۔ یہی نہیں بلکہ 93 ہزار فوجی جوانوں کی کھالیں تک نوچ ڈالی تھیں۔ اس سے پہلے 1965 میں انہوں نے رات کی تاریکی میں پاکستان کی مغربی سرحدوں پر حملہ کیا تھا اور سیالکوٹ کے میدان میں دنیا میں ہونے والی اب تک کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ چھیڑی تھی۔ اْس سے بھی پہلے اکتوبر 1947 میں مسلمانوں کی آزاد ریاست ’’کشمیر‘‘ پر فوج کشی کرکے آدھے سے کہیں زیادہ کشمیر پر قبضہ کر لیا تھا اور اس سے بھی پہلے 1947 ہی میں وہ مسلم ریاستیں جو پاکستان کا حصہ بنادی گئیں تھیں جن میں حیدرآباد دکن اور موناباؤ اور جوناگڑھ شامل تھیں، ان پر فوج کشی کرکے وہاں رہنے والے سارے مسلمانوں کو بزور شمشیر ڈس لیا گیا تھا۔ وہ کشمیر جو پاکستان کے زیر اثر ہے اس پر 1947 سے لیکر تادم تحریراپنے پھنوں اور ڈنگوں سے ڈستے رہتے ہیں اور جس کے نتیجے میں اب تک ہزاروں معصوم شہری اور سیکڑوں فوجی جوان شہید ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں وہ کشمیر جو بھارت کے زیر تسلط تھا اس میں مسلمانوں کے لہو سے مسلسل ہولی کھیلی جا رہی ہے اور خواتین کی عزت و عصمت کو سر عام ڈسا جارہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو تہذیبیں سیکڑوں برسوں ساتھ رہنے کے باوجود بھی ایک نہ ہوسکیں، آپس میں شیر و شکر نہ بن سکیں، ان تہذیبوں کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ کرتارپور راہداری کھل جانے اور آنے جانے کی وجہ سے ایک دوسرے کے قریب آجائیں گی نہ صرف دیوانے کا خواب ہے بلکہ یہ یہاں کے مسلمانوں اور افواج پاکستان کی عزت و غیرت کا بھی ایک کڑا امتحان ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک تجزیہ یہ بھی پیش کیا جارہا ہے کہ افتتاح کے موقع پر 10 ہزار یاتریوں کا آنا، اور پھر ہر روز 5 ہزار یاتریوں کے آنے سے پاکستان کو فی کس 20 ڈالرز اور ان کی یہاں آکر خریداری سے اوسطاً 30 ڈالز کی آمدنی ہو سکے گی جس سے پاکستان کو سالانہ کئی لاکھ ڈالرز حاصل ہو سکیں گے۔ ان کا یہ تجزیہ بہر لحاظ درست اور پاکستان کے لیے سود مند ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان سیاحوں کے لیے جنت ہے اور اگر سیاحوں کو رعایات دی جائیں، بین الاقوامی معیار کی سہولتیں میسر ہوں اور امن و امان کی صورت حال مثالی ہو تو پاکستان میں آ کر سیاحت کرنے والوں کا ایک تانتا بندھ جائے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہے کہ اگر صرف سکھوں کے آنے جانے سے ہماری سالانہ آمدنی کروڑوں ڈالرز ہوسکتی ہے تو پھر وہی ساری سہولتیں جو سکھوں کو آنے جانے کے لیے دی جارہی ہیں، ہندوستان میں رہنے والے کروڑوں مسلمانوں کو کیوں نہیں دی جاسکتیں۔ سکھوں سے کہیں زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے اور ان کی زیارتوں سے کہیں زیادہ ایسی عبادت گاہیں، خانقاہیں اور مزارات پاکستان میں موجود ہیں جن کا دیدار کرنے کے لیے وہاں کے مسلمان پاکستان آنا جانا چاہتے ہیں۔ اگر 5 کلو میٹر دوری کا فائدہ اٹھا کر پاکستان سکھوں سے 20 ڈالرزکما سکتا ہے تو 100 کلومیٹر یا اس سے کچھ دور واقع تاریخی مقامات، مساجد، پیروں در گاہوں اور خانقاہوں کے لیے آنے والے مسلمانوں سے پاکستان کم از کم 100 فی کس ڈالرز کما سکتا ہے۔
اگر دولت کمانا ہی مقصود نظر ہو لیکن اس کو حاصل کرنے کے طریقہ کار پر ہماری نظر نہ ہو، اس کے جائز، ناجائز ہونے کا ہمیں کوئی خیال نہ ہو اور حلال و حرام ہماری نگاہ میں کوئی اہمیت نہ رکھتا ہو تو پھر اس کے تو اور بھی بے شمار راستے ہیں۔ پاکستان لاکھوں ایکڑ زمین پر پوست پیدا کر سکتا ہے۔ پوست کی پھٹی جہاں ٹنوں خشخاش پیدا کر سکتی ہے وہیں ان سے چرس اور ہیروئین بنائی جاسکتی ہے۔ بھنگ وہ بوٹی ہے جو خودرو ہے اور ٹنوں کے حساب سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کو کاشت کرنے میں ایک دھیلہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ یہ دو چیزیں ایسی ہیں جس سے قیمتی شاید ہی کوئی اور پیداوار ہو۔ یہ ہم دنیا میں اس لیے فروخت یا اسمگل نہیں کرنا چاہتے کہ یہ انسانوں اور انسانیت کی دشمن پیداوار ہیں۔ جب دولت کا حصول ہی مقصود ہوتو پھر وہ کون سا گھر ہے جہاں بہو بیٹیاں موجود نہیں۔ جب اپنی ’’ماں دھرتی‘‘، اپنی خواتین، اپنے دین، اپنے مذہب، اپنی اقدار اور اپنی عزت و آبرو کو چند ڈالروں کے عوض بیچا جاسکتا ہے تو پھر کیا ضروری ہے کہ گھروں کے دروازے بند رکھے جائیں۔
کرتارپور کی راہداری کھولنے سے پہلے جسموں پر لگنے والے مسلسل زخموں کا خیال تو کر لیا ہوتا۔ 1947 کے شہیدوں اور خواتین کی لٹتی ہوئی عزتوں کی جانب نظر ڈال لی ہوتی، کشمیر پر قبضے کو دیکھ لیا ہوتا، حیدرآباد دکن اور جوناگڑھ میں تڑپتے لاشوں کو تصور میں لے لیا ہوتا۔ 1965 کی بلاجواز جنگ کے نقصانات کا حساب لگا لیا ہوتا۔ 1971 میں بنگالی مسلمانوں کے بہتے لہو کا سوچ لیا ہوتا۔ 93 ہزار فوجیوں کا گرفتار ہونا یاد کر لیا ہوتا اور اب کشمیر میں بلند ہوتی، آہیں، سسکیاں اور کراہیں سن لی ہوتیں تو یہ آنے والے چند ڈالرز خون میں ڈوبے ہوئے دکھائی دے رہے ہوتے اور تم ایسی آمدنی پر لعنت بھیج رہے ہوتے۔ حکمرانو! نوٹوں کے غلام مت بنو، کسی بین الاقوامی دباؤ کا شکار ہو تو عوام کے سامنے صورت حال رکھو، قوم کا سودا مت کرو۔ یاد رکھو مسلمانوں کی شان بت شکنی میں ہے بت فروشی میں نہیں۔ اگر تم مسلمان ہو تو راہداری کے ذریعے ہونے والی آمدنی پر لعنت بھیجو ورنہ اعتراف کرو کہ تم حقیقت میں ’’نسلی‘‘ ہو ’’اصلی‘‘ نہیں۔