فوج کو 2008ء میں کس مقصد کے لیے طلب کیا گیاتھا؟ چیف جسٹس

140

اسلام آباد (آن لائن )عدالت عظمیٰ میں فاٹا اور پاٹا ایکٹ آرڈیننسز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ بتایا جائے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کب طلب کی گئی،فوج طلب کیے جانے کے بعد ذیلی قانون سازی کیا ہوئی اور کب ہوئی،ہم تمام واقعات ترتیب وار سمجھنے کے بعد اس کی قانونی حیثیت کا جائزہ لیں گے،فوج کو 2008ء میں کس مقصد کے لیے طلب کیا گیاتھا؟فوج نے آ تے ہی حراستی مراکز تو نہیں بنائے ہوں گے،فوج طلب کرنے پر بھی قانون کے تحت ہی کام کر سکتی ہے،فوج کے کام کرنے سے متعلق پہلی مرتبہ قانون 2008ء میں بنایا گیا، 2008ء سے 2011ء تک فوج بغیر کسی قانون کے کام کرتی رہی، کیاقانون منظور کرنے سے پہلے کسی نے پڑھا نہیں،کیا زیر حراست شخص بھی فوج کی موجودگی تک حراست میں رہے گا، آ رڈیننس کے مطابق تو سامنے آ نے والے شواہد کو درست تسلیم کیا جائے گا ،آ رڈیننس کے مطابق شواہد کو قانون شہادت سے بھی بالاتر قرار دیا گیا ہے،اگر شواہد کو درست ہی ماننا ہے تو ٹرائل کی کیا ضرورت ہے، آرڈیننس کے مطابق فوجی افسریا اس کے نمائندے کی گواہی سزا کے لیے کافی ہوگی، ایسے تو عدالتوں سے بری ہونے والوں کو بھی حراستی مراکز میں ہی رکھ لیں،ایسا قانون ہے تو پھر ٹرائل کی کیا ضرورت ہے، 2016ء میں امریکا میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا۔معاملے کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے حراستی مراکز اور ان میں موجود قیدیوں کی سربمہر فہرست عدالت میں پیش کی۔دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ کیا سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج غیر معینہ مدت کے لیے آ تی ہے ،عدالت میں صرف فوج طلب کرنے کی دستاویزات دی گئی ہیں،فوج طلب کرنے کی بابت وزارت دفاع کا جواب دستاویزات میں شامل نہیں،کیا عملی طور پر کیس کا جائزہ لیا جاتا ہے یا صرف کاغذی باتیں ہیں،کیا زیر حراست افراد کو دفاع کا حق ہوتا ہے حیرت ہے کہ حراست میں رکھنا سزا نہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے ایک موقع پر ریمارکس دیے کہ کیا پہلے حراست میں رکھنا اور پھر قانون کے حوالے کرنا دوہری سزا نہیں،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بظاہر زیر حراست افراد کو دفاع اور جرح کا حق نہیں،جنگ کے دوران قید دشمن قیدی پر بھی جنیوا کنونشن کا اطلاق ہوتا ہے۔چیف جسٹس بولے کہ وزارت دفاع کے جواب سے ہی فوج کے مینڈیٹ کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ معاملے کی سماعت جمعہ تک کے لئے ملتوی کر دی گئی ہے۔