جناب سراج الحق کا سینیٹ میں خطاب‘ چند گزارشات

581

امیر جماعت اسلامی پاکستان و سینیٹر جناب سراج الحق نے گزشتہ دنوں سینیٹ سے خطاب کیا جو 9 نومبر 2019ء کے اخبارات میں شائع ہوا۔ آپ نے اپنے خطاب میں یوں تو بہت کچھ کہا تاہم آپ کے خطاب کے اہم نکات وہ تھے جو ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کے حوالے سے بیان فرمائے۔ ’’سقوط ڈھاکا کے بعد سقوط کشمیر ہماری تاریخ کا بدترین سانحہ ہے، ریاست کشمیر کا وجود دنیا کے نقشے سے ختم ہوگیا ہے‘‘۔ جماعت اسلامی کے امیر کا ’’مسئلہ کشمیر‘‘ پر مذکورہ تبصرہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ مشرقی پاکستان کو بچانے اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی و الحاق پاکستان کے لیے جماعت اسلامی کی جدوجہد اور قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ مشرقی پاکستان میں جنرل جب سرنڈر کر گئے تو تب بھی البدر اور الشمس کے نوجوانوں نے شکست تسلیم نہیں کی، ڈھاکا کا پلٹن میدان گواہ ہے کہ بھارتی فوجی ان مجاہدوں کے پیٹ، سینے اور منہ میں سنگینیں گھونپتے رہے تاہم 18 اور 19 برس کے یہ نوجوان شہادت کے آخری لمحات تک اسلام، پاکستان اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے، یہاں تک کہ 45 برس بعد بنگلادیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کے غیر قانونی ٹریبونلز نے جب جماعت اسلامی کے 8 رہنمائوں کو سزائے موت سنائی تو وہ جو 1971ء میں طالب علم تھے اور اب بزرگ بن چکے تھے تختہ دار پر یوں مسکراتے ہوئے چڑھ گئے جیسے برسوں سے اس ’’شہادت‘‘ کا انتظار کررہے ہوں۔
اس طرح سے مقبوضہ کشمیر جیسے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ’’شہ رگ‘‘ قرار دیا تھا اُس کی بھارتی تسلط سے آزادی اور الحاق پاکستان کے لیے بھی جماعت اسلامی نے بہت کام کیا۔ پاکستان، آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر، بھارت اور بنگلادیش میں جماعت اسلامی کا وجود مسلمانوں کے نظریاتی تشخص کی حفاظت اور مضبوط پاکستان کی ضمانت ہے۔ بنگلادیش میں آج بھی مشرقی پاکستان سے محبت کا احساس پایا جاتا ہے۔ بھارت میں کروڑوں مسلمانوں کے اندر ’’دو قومی نظریے‘‘ کی اہمیت اور افادیت کو آج پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کیا جارہا ہے، مقبوضہ کشمیر کے اندر بھارتی تسلط سے آزاد ہونے اور پاکستان سے الحاق کا جذبہ جس طرح سے ایک انقلاب اور طوفان کا رُخ اختیار کرتا جارہا ہے ان سب کے باطن میں جماعت اسلامی کی سوچ، فکر اور پیغام شامل ہے۔ لہٰذا جماعت اسلامی کا امیر جو بھی رہا سب ہی نے ڈھاکا سے سری نگر اور بابری مسجد سے ریاست جوناگڑھ تک مسلمانوں کے مقدمے کو توجہ سے سنا اور اُس کی پیروی کی۔ یوں تو جماعت اسلامی اتحاد امت اور غلبہ دین کے لیے پوری دنیا میں سرگرم عمل ہے تاہم مشرقی پاکستان سے لے کر مسئلہ کشمیر تک جماعت اسلامی نے بہت کوشش کی کہ کس طرح سے پاکستان کو کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے جو نہ صرف اس خطے کے مسلمانوں کا بہت بڑا سہارا ہے بلکہ امت مسلمہ کے لیے بھی باعث اطمینان اور باعث فخر ہے کہ اسلامی نظریے اور ایٹمی قوت کا حامل یہ ملک اسلامی دنیا کا ایک طاقتور حصہ ہے۔
5 اگست 2019ء کو وزیراعظم نریندر مودی نے جس طرح سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے بھارت میں شامل کرلینے کا اعلان کیا اس کے بعد یقینا جہاں مقبوضہ وادی کی داخلی صورت حال تبدیل ہوئی وہیں پر عالمی سطح پر بھی ’’مسئلہ کشمیر‘‘ پر پاکستان کا مقدمہ کمزور پڑ گیا ہے، کیوں کہ نیو دہلی سرکار اب اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دینے لگی ہے، اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ قرار دادوں کا حوالہ بھی روز بروز غیر موثر ہونے لگا ہے۔ یعنی ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کے حوالے سے جو صورت حال پہلے ہی مایوس کن تھی جناب سراج الحق کے مذکورہ خطاب کے بعد مزید مایوسی پھیل گئی، مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور الحاق پاکستان کا خواب چکنا چور ہوگیا کیوں کہ جماعت اسلامی سے بڑھ کر مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے اور اس کے الحاق پاکستان کے لیے کسی دوسرے کا کوئی ایجنڈا نہیں تھا۔
لہٰذا امیر جماعت اسلامی نے سینیٹ میں جو کچھ کہا وہ محض ایک خطاب ہی نہیں بلکہ بہت بڑا انکشاف ہے جس پر پاکستان کی پوری قومی قیادت (حکمران، سیاستدان اور جنرل) کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے کہ کیا واقعی ایسا ہوگیا یا ہوچکا جیسا کہ سراج الحق صاحب کہہ رہے ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ جناب سراج الحق صاحب کی خدمت میں بھی چند گزارشات رکھ دی جائیں اور اس بات کی طرف توجہ دلائی جائے کہ شاید ابھی ’’سقوط کشمیر‘‘ کا وقت نہ آیا ہو، ممکن ہے کہ ہمارے پاس اب بھی ایسے آپشن موجود ہوں جنہیں بروئے کار لا کر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کو یقینی بنایا جاسکتا ہو؟۔
27 فروری 2019ء کو جب بھارت کے دو مگ جہازوں نے پاکستان کے اندر حملہ کیا، 3 مارچ کو ایک بھارتی آبدوز پاکستان کی سمندری حدود میں داخل ہوئی۔ حملہ آور پائلٹ اور آبدوز کے عملے کو گرفتار کرکے مقدمہ چلانے کے بجائے انہیں واپس کردیا گیا۔ ایک اسرائیلی پائلٹ بھی تھا اُسے بھی پُراسرار طور پر نکال دیا گیا۔ یہ تمام فیصلے یکطرفہ خیرسگالی کے نام پر ہوئے جن کا پہلا نقصان یہ ہوا کہ بی جے پی اور اُس کے اتحادی انتخابات جیت گئے، پاکستان دشمن اور دہشت گرد نریندر مودی دوسری مدت کے لیے بھارت کا وزیراعظم بن گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے مودی کو مبارک باد دی۔ بعدازاں امریکا کے دورے پر گئے جہاں صدر ٹرمپ نے پاکستان کے وزیراعظم کو ’’مسئلہ کشمیر‘‘ پر ثالثی کی پیشکش کی، وزیراعظم ٹرمپ ٹریپ ہوئے اور پیشکش قبول کرلی تاہم 24 گھنٹے گزرنے سے پہلے ہی وزیراعظم مودی نے امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش کو مسترد کردیا۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے ٹھیک 14 دن بعد وزیراعظم مودی نے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے بھارت کا حصہ قرار دینے کا اعلان کردیا۔ ردعمل میں حکومت پاکستان سلامتی کونسل، یو این اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے پاس گئی۔ دوست ممالک کے دارالحکومتوں کے دورے کیے، عالمی برادری سے اپیلیں کیں، تاہم کہیں سے بھی کوئی خاطر خواہ حمایت حاصل نہ کی جاسکی، ناکامی یہاں تک بڑھ گئی کہ عمران حکومت اسلام آباد میں ’’او آئی سی‘‘ کا سربراہی اجلاس تک کا انعقاد نہ کراسکی کہ بھارت کو کم از کم عالم اسلام کے دبائو کے نیچے تو لایا جاتا۔ اِسی دوران بھارت کی مزید حوصلہ افزائی ہوئی اور وزیراعظم مودی نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کی طرف بہنے والے تین دریائوں پر ڈیم باندھنے کا اعلان کردیا
جس پر ہماری وزارت خارجہ کا ردعمل مذمت کے سوا کچھ نہ تھا، کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم سرجیکل اٹیک کرکے ڈیم توڑ دیں گے، جب کہ اس دوران حکومت پاکستان نے مزید غلطی یہ کی کہ ’’کرتارپور راہداری کا پھاٹک کھول دیا، جب کہ دوسری طرف اسی روز بھارت کی عدالت عظمیٰ نے تاریخی بابری مسجد کی جگہ پر مندر تعمیر کرنے کا فیصلہ سنادیا۔ علاوہ ازیں اس سے پہلے مقبوضہ کشمیر کے اندر تین ماہ سے کرفیو نافذ ہے، ایک کروڑ کے لگ بھگ مسلمان محصور ہیں، ان کی مسجدوں اور گھروں کے دروازے بند ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کو کرتارپور راہداری کھولنے کی بڑی فکر اور جلدی تھی، نہیں معلوم کہ بابا گرونانک ہمارے حکمرانوں میں سے کس کے ’’بابا‘‘ تھے۔
عمران حکومت نریندر مودی اور ان کی جماعت کو انتخابی کامیابی دلانے سمیت پاکستانی مفادات کے خلاف کام کرنے کے جو مواقعے فراہم کیے اس پر تمام سیاسی جماعتوں اور پوری قوم کا ردعمل موجود ہے جس کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں، یہاں صرف ’’جماعت اسلامی‘‘ کے حوالے سے بات ہورہی ہے جو ہمارے نزدیک بھارت کے ناپاک عزائم اور پیش قدمی کو روکنے کے لیے بہت کچھ کرسکتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے جماعت اسلامی کی کامیاب ریلیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ کشمیر کے مسئلے پر قوم کو جماعت اسلامی پر مکمل اعتماد ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر مولانا فضل الرحمن صاحب 10، 15 لاکھ لوگوں کے ساتھ محض وزیراعظم سے استعفے لینے کے لیے اسلام آباد میں پڑائو ڈال سکتے ہیں تو جماعت اسلامی اس سے کہیں زیادہ طاقت کے ساتھ کنٹرول لائن عبور کرسکتی ہے۔ امیر جماعت اسلامی جناب سراج لحق صاحب اگر آج یہ اعلان کردیں کہ وہ فلاں تاریخ پر 20 لاکھ لوگوں کے ساتھ کنٹرول لائن عبور کریں گے تو ہمیں یقین ہے کہ سراج الحق صاحب کے ٹرک کے پیچھے 50 لاکھ لوگ چل کھڑے ہوں گے جن کو بھارت اور پاکستان کے سیکورٹی دستے مل کر بھی روک نہیں سکیں گے۔بہرحال وقت تیزی سے گزر رہا ہے، مزید غلطیوں کی گنجائش نہیں، اگر کنٹرول لائن عبور کرنے کا فیصلہ ہم نہیں کریں گے اور کوئی ’’ڈیڈ لائن‘‘ نہیں دیں گے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
اللہ رب العزت ہماری مدد و رہنمائی فرمائے۔ آمین ثم آمین