سید علی گیلانی کا صائب مشورہ

440

مقبوضہ وادی جموں و کشمیر کو بھارت کی جانب سے ہڑپ کرنے اور اس کے محاصرے اور کرفیو کو ایک سو دن مکمل ہوچکے ہیں ۔ اس موقع پر کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو ایک مکتوب بھیجا ہے جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارتی اقدامات کے جواب میں پاکستان بھی فوری طور پر قدم اٹھائے ۔ سید علی گیلانی نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں میں لاہور ، شملہ و تاشقند معاہدے ، لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے باڑ لگانے کے معاہدے شامل ہیں ، فوری طور پر دستبردار ہو جائے کہ بھارت نے ازخود یہ معاہدے عملی طور پر توڑ دیے ہیں ۔ اسے بھارت کی کامیابی اور پاکستان کی ناکامی ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ بھارت نے دن دہاڑے ایک متنازع علاقے پر قبضہ کرکے اسے اپنی مملکت میں شامل کرلیا ہے اور وہاں کے باشندے مسلسل ایک سو روز گزرنے کے باوجود کرفیو میں محصور ہیں مگر پاکستانی قیادت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔ ان سو دنوں میں عمران خان کی واحد کارکردگی اقوام متحدہ میں کی گئی ایک تقریر ہے ۔ عملی طور پر پاکستانی قیادت لائن آف کنٹرول سے متصل پاک بھارت سرحد پر بھارتیوں کو پاکستان میں بلا پاسپورٹ اور ویزا آنے کی اجازت دینے کے بعد اس خوشی میں بھنگڑے ڈال رہی تھی ۔ نیپال جیسا کمزور ملک بھی بھارت کی جانب سے اپنے علاقے ہڑپ کرنے پر بھارت سے جواب طلب کرلیتا ہے مگر ایک ایٹمی طاقت ہونے کی دعویدار پاکستانی حکومت یوں دم سادھے بیٹھی ہے کہ جیسے کشمیر پر بھارت سے جواب طلبی کی تو بھارت پورے پاکستان پر ہی قبضہ کرلے گا ۔ جنگیں فوج نہیں قوم لڑتی ہے اور پاکستانی قوم جذبہ شہادت سے بھی سرشار ہے اور اپنے کشمیری بھائیوں کی ابتلا و آزمائش پر عملی اقدامات نہ ہونے پر دلگرفتہ بھی ۔ حکومت کی بزدلی پر پاکستانی نوجوان مایوسی کا شکار ہورہے ہیں جس کے نتیجے میں وہ کسی عسکری تنظیم کے آلہ کار بھی بن سکتے ہیں ۔ یہ سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے کہ حکومت سفارتی سطح پر بھی بھارت کے خلاف کیوں متحرک نہیں ہے ۔ جس طرح نیم دلی سے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں ، اسلامی ممالک کی تنظیم اور دیگر عالمی فورموں پر پاکستان کی جانب سے اٹھایا گیا ہے ، اس سے شکوک و شبہات یقین میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں ۔ اب پاکستان بھارت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی میں مصروف ہے ۔ آخر کیوں ۔ بھارت کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسئلہ حل نہ کرسکنے کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ موجودہ قیادت کے پاس نہ وژن ہے اور نہ ہی مسائل کو حل کرسکنے کی صلاحیت ۔ جس قوم کے جوان اور شہری کنٹرول لائن پر روز مارے جارہے ہوں ، اس کا سربراہ کس طرح دشمن کے ساتھ جھپیاں ڈال کر سرحد ہی ختم کرنے کا اعلان کرکے بھنگڑے ڈال سکتا ہے ۔جس وقت کرتار پور کی سرحد بھارتی شہریوں کے لیے بلا کسی پاسپورٹ اور ویزے کے کھولی جارہی تھی ، عمران خان نے کیوں اس طرح کی سہولت کی بات کشمیریوں کے لیے نہیں کی جن کے خاندان منقسم ہیں اور انہیں جبری طور پر ایک دوسرے سے جدا کردیا گیا ہے ۔ سکھوں کے لیے ان کے مذہبی مقامات تک رسائی دینے پر سے کسی کو اعتراض نہیں مگر قیام پاکستان کے وقت انبالہ ، گورداسپور اور جالندھر میں ان ہی سکھوں نے پاکستان آنے والوں کے ساتھ جو سلوک کیا تھا ، وہ بھلانے والی چیز نہیں ہے ۔ کم از کم ان سکھوں کے رہنماؤں سے یہ تو کہا جاتا کہ انہوں نے قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرنے والوں کے ساتھ جو سلوک کیا تھا ، اس پر شرمساری کا رسمی اظہار ہی کریں اور ان مقتولین کے ورثاء سے معافی ہی طلب کریں ۔ اس زمانے میں اغوا کی گئی مسلم بچیوں کا پتا ہی چلانے کے لیے کوئی تنظیم قائم کی جاتی ۔ مگر ایسا کچھ نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کا کہیں پر کوئی تذکرہ ہے ۔ صرف مٹی پاؤ کی پالیسی ہے ۔بھارت نے مقبوضہ وادی کو ہڑپ کرلیا ، بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر کیا جارہا ہے ، پاکستانی دریاؤں کا پانی روک لیا ہے ، پورے بھارت میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے ،عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے اور اسے ایف اے ٹی ایف میں گرے لسٹ سے نکال کر بلیک لسٹ کرنے کی کوششیں جاری ہیں ، پاکستان کے اندر دہشت گردوں کو منظم کیا جاتا ہے ، مگر پاکستان کی طرف سے ایک ہی رویہ ہے مٹی پاؤ ۔ عمران خان یاد رکھیں کہ ان کی مٹی پاؤ کی پالیسی پاکستانی قوم زیادہ دن تک برداشت نہیں کرے گی ۔ انہیں چاہیے کہ فوری طور پر وہ پاکستانی قوم کی امنگوں کے مطابق اپنی پالیسیاں تشکیل دیں اور بھارت کو لگام دیں ۔ بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے بہت صحیح مشورہ دیا ہے کہ بھارت سے کیے گئے تمام معاہدوں پر مٹی ڈالیں۔ بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر کے پاکستان کا پانی روک رہا ہے اور مودی پاکستان کو بنجر بنا دینے کا اعلان کررہا ہے۔ کم از کم اتنا تو ہو کہ دشمن کو دشمن سمجھا اور کہا جائے نہ کہ اس سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی احمقانہ سوچ کا اظہار کیا جائے۔