وفاقی حکومت نے خاموشی کے ساتھ بجلی کے استعمال شدہ یونٹوں پر پچاس فیصد ٹیکس عائد کردیا ہے ۔ یہ ٹیکس پہلے سے عائد فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز، ود ہولڈنگ ٹیکس، سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں کے علاوہ ہے ۔ بجلی کے استعمال شدہ یونٹوں پر پچاس فیصد ٹیکس عائد کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ اب ہر صارف کا بجلی کا بل مزید پچاس فیصد بڑھ جائے گا ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بجلی کے نئے بل آنے کے بعد کس طرح سے مہنگائی کا ایک نیا سونامی پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے گا ۔ عمرانی حکومت کی جانب سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری ، شرح سود کو تقریبا دگنا کرنے اور بجلی ، پٹرول و گیس کی نرخوں میں زبردست اضافے کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی سے ابھی تک عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں کہ حکومت نے ایک اور ڈائنامائٹ فٹ کردیا ہے ۔ معیشت کے سارے ہی اشاریے ایک ہی سمت میں اشارہ کررہے ہیں کہ عوام کی اکثریت خط غربت کے نیچے جاچکی ہے اور بقیہ لوگ بھی بمشکل سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے ہیں ۔ ایسے میں آئی ایم ایف کے فرستادہ افراد کے حکم پر عمران خان کی جانب سے بجلی کے بلوں میں پچاس فیصد اضافے کا مطلب تباہی پر مزید تباہی ہے ۔ عمران خان آخر یہ بات کیوں سمجھنے پر تیار نہیں ہیں کہ معیشت کا پہیہ گھومے گا تو حکومت کو ریونیو ملے گا ۔ جب معیشت ہی کساد بازاری کا شکار ہے اور آئے دن صنعتیں بند ہورہی ہیں تو وہ ٹیکسوں کی شرح پچاس فیصد تو کیا پانچ سو فیصد بڑھادیں ، حکومت کو حاصل ہونے والی آمدنی میں کمی ہی آئے گی۔ کیا ہی بہتر ہو کہ عمران خان آئی ایم ایف کی پاکستان دشمن ٹیم سے چھٹکارا حاصل کریں اور محب وطن اہل افراد پر مشتمل ٹیم تشکیل دیں ۔ عمران خان کی معاشی اور خارجی پالیسیاں دیکھ کر کہیں سے اندازہ نہیں ہوتا کہ پاکستان پر ایک پاکستانی ہی حکمراں ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پر عالمی بینک کی حکمرانی ہے اور رسمی طور پر جو لوگ اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھائے گئے ہیں وہ عملی طور پر عالمی بینک کے کارندے ہیں ۔