حضرت مولانا فضل الرحمن نے ایک بار یہ کہا تھا کہ ہمارے بغیر کوئی حکومت نہیں چل سکتی۔ ان کی یہ بات پہلے بھی سچ ثابت ہوئی اور اب بھی سچ ثابت ہورہی ہے۔ مولانا 1999ء کی دہائی سے سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں انہیں خارجہ امور کی پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین بنادیا تھا۔ وہ اپنے اس منصب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بار بار امریکا کا دورہ کرتے رہے، وہ امریکا میں قیام کے دوران لاس اینجلس ضرور جاتے تھے اور زیادہ وقت وہیں گزارتے تھے، ان کے بدخواہوں نے اس پر طرح طرح کی افواہیں پھیلائیں اور گفتنی ناگفتنی باتیں کیں لیکن کوئی ان کا بال بھی بیکا نہ کرسکا اور مولانا اقتدار کے ایوان میں بدستور معتبر رہے۔ بے نظیر بھٹو کے بعد میاں نواز شریف کا دور آیا تو میاں صاحب نے بھی انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا حصہ بن کر اڑان بھرتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کیا اور 2002ء میں اپنی نگرانی میں عام انتخابات کرائے تو اس میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد متحدہ مجلس عمل کے صدر اور مولانا فضل الرحمن اس کے سیکرٹری جنرل تھے وہ بالا بالا جنرل پرویز مشرف کے ساتھ فٹ ہوگئے اور قاضی صاحب کسمسا کر رہ گئے۔ مولانا قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر قرار پائے، خیبرپختونخوا میں بھی اکرم درانی کی سربراہی میں اپنی حکومت بنائی اور جنرل پرویز مشرف جب تک برسراقتدار رہے مولانا دونوں ہاتھوں سے مادی فوائد سمیٹتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف کا اقتدار غروب ہوا اور 2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی تو مولانا، آصف علی زرداری کے حلقہ احباب میں
شامل ہوگئے اور ان کی جماعت پیپلز پارٹی کی اتحادی بن گئی۔ مولانا کی فرمائش پر انہیں پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنادیا گیا اور ان کی خواہش پر اس منصب کو وفاقی وزیر کا درجہ، مراعات اور پروٹوکول سے نوازا گیا۔ کشمیر کمیٹی میں مولانا کی دلچسپی اس لیے تھی کہ اسے 17 کروڑ روپے کا آڈٹ فری بجٹ ملتا تھا اور کوئی پوچھنے والا نہ تھا کہ یہ پیسہ کہاں خرچ ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں مولانا نے اس منصب کو خوب انجوائے کیا۔ ان کے رفقا نے وزارتوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ کے مزے لیے۔ 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو کامیابی حاصل ہوئی اور میاں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے تو مولانا ان کے اتحادی بن گئے۔ کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ پھر ان کے حصے میں آئی اور ان کے رفقا نے بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں من پسند وزارتیں حاصل کیں۔ مولانا نے کشمیر کمیٹی کو جس انداز سے چلایا اس پر کشمیری لیڈروں کا اضطراب دیدنی تھا۔ مقبوضہ کشمیر کے سب سے معتبر اور بزرگ لیڈر سید علی گیلانی بھی احتجاج کیے بغیر نہ رہ سکے، انہوں نے نواز حکومت سے مطالبہ کیا کہ مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کی سربراہی سے الگ کیا جائے، اس سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچ رہا ہے لیکن میاں نواز شریف مولانا کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہ لے سکے اور مولانا حکومت کے خاتمے تک اپنے منصب پر برقرار رہے۔
2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کو کامیابی کا پروانہ دیا گیا۔ ان انتخابات کے نتائج پر کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں شکوک و شبہات کا اظہار کرتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں تمام انتخابات اسی نوعیت کے ہوئے ہیں جن میں اصل مقتدر قوتوں نے کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کی درپردہ سرپرستی کی ہے اور اسے تخت اقتدار پر بٹھایا ہے۔ 2013ء کے انتخابات پر بھی یہی اعتراض وارد کیا گیا تھا اور عمران خان نے اس کے خلاف طویل دھرنا دیا تھا۔ اب کی دفعہ عمران خان کی لاٹری نکلی تو دوسری جماعتیں سراپا احتجاج بن گئیں لیکن ان کا احتجاج محض بیانات تک محدود رہا۔ انہوں نے انتخابی نتائج کو بادلِ ناخواستہ قبول کرلیا۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی پہلی، مسلم لیگ (ن) کی دوسری، پیپلز پارٹی کی تیسری اور جمعیت علمائے اسلام کی چوتھی پوزیشن آئی۔ یہ کوئی معمولی پوزیشن نہ تھی۔ جمعیت علمائے اسلام ایک مضبوط پارلیمانی پارٹی کی حیثیت سے اُبھری تھی لیکن اس کے ساتھ المیہ یہ پیش آیا کہ اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف کے نوجوان سے بُری طرح ہار گئے۔ اگرچہ ان کا صاحبزادہ کامیاب ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچ گیا۔ ہار جیت سیاست کا حصہ ہے لیکن مولانا نے اپنی ہار کو بُری طرح اپنے اوپر لے لیا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر وہ جیت جاتے تو عمران خان کے اتحادی ہوتے اور خان صاحب کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ مولانا کو طشتری میں رکھ کر پیش کرتے۔ تحریک انصاف اگرچہ قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری تھی لیکن اس پوزیشن میں نہ تھی کہ تنہا حکومت بنا سکتی، اسے اتحادیوں کی تلاش تھی، اسی تلاش میں خان صاحب ایم کیو ایم کے ’’کوئے ملامت‘‘ کا طواف کرنے پر بھی مجبور ہوگئے تھے حالاں کہ ایم کیو ایم اب سُکڑ کر صرف آٹھ نشستوں تک محدود ہوگئی تھی، جب کہ اس کے مقابلے میں جمعیت علمائے اسلام کے ارکان کی تعداد دگنی تھی اور مولانا انتخابات سے قبل یہ اشارہ دے چکے تھے کہ وہ قومی مفاد میں آنے والی حکومت کے ساتھ تعاون کو ترجیح دیں گے لیکن انہیں ہرا کر تحریک انصاف نے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مارلی ہے۔
حضرت مولانا اب عمران خان کے استعفے سے کم پر راضی نہیں ہیں۔ افتخار عارف کہتے ہیں۔
کہانی آپ اُلجھی ہے یا اُلجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا
اور تماشا ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ مولانا نے حکومت کی مذاکراتی ٹیم سے صاف کہہ دیا ہے کہ اگر وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو استعفا لے کر آئیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ اگر استعفا ہی بنیادی شرط ہے تو مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس طرح فریقین کے درمیان مذاکرات عملاً ختم ہوگئے ہیں اور کہانی بُری طرح اُلجھ گئی ہے۔ مولانا اس وقت دیوار سے لگے ہوئے ہیں، پیچھے جانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مولانا کے تیور بتارہے ہیں کہ وہ تصادم کے لیے تیار ہیں، انہوں نے یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا ہے کہ وہ لاشیں اُٹھانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ تو کیا تصادم ہوگا؟ اور کیا فوج ان لوگوں پر گولیاں چلائے گی جو قرآن کی تلاوت کرتے اور درود پڑھتے ہوئے ریڈ زون کی طرف بڑھیں گے؟ ہم اس پر کوئی رائے زنی کرنے کے بجائے مولانا کی یہ بات پھر دہراتے ہیں کہ ہمارے بغیر کوئی حکومت نہیں چل سکتی۔ ابھی چند روز پہلے عمران خان نے طنزاً کہا تھا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت بھی ڈیزل کے بغیر چل رہی ہے اور پارلیمنٹ بھی، لیکن اب انہیں لینے کے دینے پڑ گئے ہیں اور حکومت چلتی نظر نہیں آتی۔