جغرافیائی اکائیوں پر اعتماد ضروری ہے

223

حکومت آزادکشمیر نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے انکم ٹیکس ان لینڈ ریونیو اور حسابات کا انچارج وزیر مقر ر کر دیا ہے۔ یہ ذمے داری سردار فاروق طاہر کو سونپی گئی ہے۔ اس طرح آزاد جموں وکشمیر کونسل کو حاصل اختیارات کی باضابطہ آزادکشمیر حکومت کو منتقلی کا ایک اہم مرحلہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ آزادکشمیر کے وزیر اعظم راجا فاروق حیدر خان نے آزادکشمیرکے آئین میں تیرہویں ترمیم کی منظوری کا بظاہر ناممکن عمل بہت محنت اور مضبوط اعصاب کے ساتھ آگے بڑھایا اور آخر کار یہ ناممکن ممکن ہو گیا۔ اب حکومت نے کشمیر کونسل سے واپس منتقل ہونے والے اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے باضابطہ نظام کی تشکیل کا آغاز کر دیا ہے۔ وزیر کا تقرر اسی سفر کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ مالیاتی خودمختاری کے ساتھ ساتھ مالیاتی خود انحصاری بھی ضروری ہوتی ہے۔ پینتالیس سال قبل آزادکشمیر کے آئین ایکٹ 1970 کے خاتمے کے بعد آزادکشمیر کی مالیاتی خود مختاری سلب ہو کر رہ گئی اور یہ اختیار نئے عبوری آئین ایکٹ 74کے تحت وزارت امور کشمیر اور آزاد جموں وکشمیر کونسل کو منتقل ہوگیا۔ یہ سیدھے سبھائو مظفر آباد کے اختیار کی اسلام آباد منتقلی تھی اور یہ قطعی بلاجواز عمل تھا۔
عمومی طور پر ٹیکس جمع کرنے کا اختیار بھی اسی اتھارٹی ہوتا ہے جو براہ راست ٹیکس دہندگان کی فلاح و بہبود کی ذمے دار اور کسی حد تک ان کی چنیدہ ہو۔ یہاں آدھا تیتر آدھا بٹیر کا نظام رائج رہا ٹیکس جمع کرنے والی اتھارٹی کوئی تھی اور اس کا عوام کے مفاد سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا اور بعد میں یہی ٹیکس وہ سروس چاجز کاٹ کر عوام کو امداد کے نام پر لوٹاتی تھی۔ اس طرح عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ دو اتھارٹیز کے درمیان گردش کرتا رہتا۔ اگر آزادکشمیر حکومت کے پاس ٹیکس جمع کرنے کی صلاحیت نہیں بھی تھی تو وقت کے ساتھ ساتھ آزاد حکومت اور سسٹم میں اس کی صلاحیت پیدا کی جا سکتی تھی۔ اس جانب کسی دور میں توجہ نہیں دی گئی اور یوں آزادکشمیر مالیاتی اختیار کو ترستا ہی رہا۔ مالیاتی اختیار سے محرومی نے آزادکشمیر حکومت کو فطری، نظری اور عملی اعتبار سے زیردست اور کشمیر کونسل کو بالادست بنائے رکھا۔ اسی وجہ سے امو ر کشمیر کے وزراء آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے معاملے میں وائسرائے جیسا رویہ اپناتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام اور اکائیوں پر اعتماد سے وفاق اور ریاستیں کبھی کمزور نہیں پڑتیں بلکہ عوام پر اعتماد انہی عوام کو ریاست کی طاقت بناتا ہے۔ پراعتماد عوام کسی ریاست کی طاقت ہوتے ہیں کمزوری نہیں۔ ہم نے ایک انجانے خوف کے باعث اس کے برعکس بیمار سوچ اپنالی۔ ہر ایک پر شک اور اعتماد کے اظہار میں جھجک اور ہچکچاہٹ نے بے شمار سماجی وسیاسی مسائل کو جنم دیا۔ آزادکشمیر کا خطہ بھی اسی بنا پر کئی مسائل کا سامنا کرتا چلا آیا ہے۔ یہ رویے معاشروں میں ففتھ کالمسٹس کو مضبوط بناتے ہیں شکر ہے آزادکشمیر میں یہ عنصر زیادہ زور پکڑ نہیں سکا وگرنہ اسلام آباد کے منصوبہ سازوں نے اپنی پالیسیوں کے باعث ففتھ کالمسٹس کو مضبوط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
آزادکشمیر نے جب بطور ریاست سفر کا آغاز کیا تھا تو یہ وسائل سے محروم تو ضرور تھی مگر اس کی خوبو ایک انقلابی اور آزاد حکومت سی تھی وقت گزرنے کے ساتھ ایک نمائندہ اور انقلابی حکومت کو میونسپل کمیٹی بنا دیا گیا۔ آزادکشمیر کے سیاست دانوں نے بھی وقتی مصلحتوں کے باعث اپنے اختیارات مانگے بنا وزارت امور کشمیر اور کشمیر کونسل کو منتقل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ راجا فاروق حیدر اس حوالے سے ایک صاف ذہن اور واضح مقصد رکھنے والے انسان تھے جو اس بااختیار اور باوقار آزادکشمیر کو نعرہ بنائے بغیر اس خواب کی تعبیر بنانے پر یقین رکھتے تھے۔ سو موقع ملتے ہی انہوں نے تیرہویں ترمیم منظور کر کے ایک خواب کو تعبیر فراہم کر دی۔ اس نئے اختیار میں بے احتیاطی اور غلطی کا احتمال بھی ہے مگر غلطی کا خوف ذہنوں پر طاری ہوجائے تو انسان عمل کی دنیا میں پہلا قدم ہی نہیں اُٹھا سکتا۔ آزادکشمیر حکومت کو اب نئے اختیار کو صلاحیت اور دیانت کے ساتھ استعمال کرنا ہوگا یہی مزید اختیار حاصل کرنے کا فطری انداز ہے۔