پاکستان میڈیکل کمیشن، احمقانہ اقدام

340

سندھ اسمبلی نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی تحلیل کے خلاف قرارداد منظور کی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی عدالت عالیہ اسلام آباد میں بھی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی تحلیل اور اس کی جگہ پاکستان میڈیکل کمیشن کی تشکیل کے خلاف پٹیشن بھی دائر کردی گئی ہے جس پر عدالت نے حکومت سے جواب طلب کرلیا ہے ۔ عمرانی حکومت نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو ایک آرڈیننس کے ذریعے تحلیل کرکے پاکستان میڈیکل کمیشن تشکیل دیا ہے ۔ اس آرڈیننس کو اب قومی اسمبلی سے منظور کرکے قانون کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔ پاکستان میڈیکل کمیشن جس طرح سے تشکیل دیا گیا ہے وہ بجائے خود ایک سوالیہ نشان ہے ۔ اس کے اولین ارکان میں ایک ڈانسر اور گائیکہ روشانے ظفر بھی شامل ہیں جو آج کل ایک این جی او چلارہی ہیں ۔ اس میں آغا خان فاؤنڈیشن کا نمائندہ بھی ہوگا ۔ پاکستان میڈیکل کمیشن نے پہلا حکم نامہ ہی یہ جاری کیا ہے کہ اب پاکستانی میڈیکل کالجوں کے طلبہ کو پاکستان میں ہاؤس جاب کرنے سے قبل مزید ایک امتحان پاس کرنا ہوگا جسے نیشنل لائسنس ایگزام (این ایل ای ) کا نام دیا گیا ہے ۔ اس کی فیس ایک لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے ۔ ہاؤس جاب کے بعد این ایل ای کا مزید ایک اور امتحان پاس کرنا ہوگا جس کے بعد انہیں پاکستان میں پریکٹس کرنے کی اجازت دی جائے گی ۔ پاکستان میڈیکل کمیشن کی اس منظق سے پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کو اپنے ہی تعلیمی اداروں کے امتحانی نظام پر اعتبار نہیں ہے تو وہ اسے درست کرے نہ کہ اپنی نااہلی کی سزا طلبہ و طالبات کو دے ۔ اگر این ایل ای ہی لینا ہے تو پھر میڈیکل کالجوں کے فائنل امتحان منسوخ کردیے جائیں ۔ ان طلبہ و طالبات کا درست موقف ہے کہ سارا ظلم میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والوں ہی پر کیوں ۔ پہلے یہ طلبہ و طالبات میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے انٹرمیڈیٹ میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کے لیے دن رات ایک کردیتے ہیں ، اس کے بعد انہیں این ٹی ایس کے مرحلے سے جس طرح گزارا جاتا ہے ، وہ کسی اور شعبے میں داخلے سے کہیں زیادہ کڑا امتحان ہے ۔ ایم بی بی ایس کی تعلیم بجائے خود ایک بڑا امتحان ہے ۔ اس کے بعد جب یہ طلبہ میڈیکل کالجوں سے فارغ ہوتے ہیں تو اب انہیں این ایل ای کے مزید دو امتحانات دینے کا مژدہ سنادیا گیا ہے ۔ پوسٹ گریجویشن کے لیے پہلے یہ طلبہ ایف سی پی ایس پارٹ ون کا امتحان پاس کرتے ہیں ، اس کے بعد پوسٹ گریجویشن کی چار سالہ ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے مزید ایک امتحان اور دیتے ہیں ۔ دو سال کی ٹریننگ کے بعد انہیں آئی ایم ایم کا سی پی ایس پی کا ایک امتحان پاس کرنا ہوتا ہے ۔ اس درمیانی مدت کے امتحان کو پاس کرنے کے بعد انہیں دو سال کی مزید ٹریننگ کے بعد پارٹ ٹو کے امتحان میں شرکت کی اجازت ملتی ہے ۔ یہ امتحان اتنا سخت ہوتا ہے کہ بعض امیدواروں کو تو کئی کئی برس اس کو پاس کرنے میں لگ جاتے ہیں ۔ دوران تربیت یہ ڈاکٹر جب نائٹ ڈیوٹی کرتے ہیں تو انہیں مسلسل 30 گھنٹے کی ڈیوٹی کرنا ہوتی ہے ۔ اس کے بعد اگلے روز دوبارہ انہیں ڈیوٹی پر حاضر ہونا ہوتا ہے ۔ بعض اوقات انہیں ہفتے میں دو نائٹیں بھی کرنا ہوتی ہیں ۔اتوار ، عید ، بقر عید سمیت ہر تعطیل والے دن یہ ڈاکٹر اسپتال میں اپنی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں ۔ اس پر انہیں کئی کئی ماہ تنخواہ بھی ادا نہیں کی جاتی ہے ۔ عاجز آکر اگر یہ ڈاکٹر ہڑتال پر چلے جائیں تو عدلیہ تنخواہ نہ دینے والوں کی گوشمالی کرنے کے بجائے انہی ڈاکٹروں کو تنبیہہ کرتی ہے کہ وہ ہڑتال نہیں کرسکتے اورا گر انہوں نے ہڑتال کی تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی ۔ ان حالات سے دلبرداشتہ ہو کر نوجوان ڈاکٹروں خاص طور سے تازہ فارغ التحصیل ہونے والے ڈاکٹروں نے پاکستان سے باہر جانے کی راہ پکڑ لی ہے ۔ اگر یہ صورتحال یونہی رہی تو آئندہ پانچ چھ سال کے بعد پاکستان میں ڈاکٹروں کی شدید قلت ہوجائے گی اور کسی اسپتال میں جونیئر ڈاکٹر دیکھنے کو بھی نہیں ملے گا ۔ آخر یہ عمران نیازی چاہتے کیا ہیں جو پاکستان سے طبی شعبے کے ماہرین کو زبردستی ملک سے باہر دھکا دے رہے ہیں ۔ عمران نیازی نے پہلے سرکاری اسپتالوں سے مفت طبی سہولتیں واپس لیں، دواؤں کی قیمتوں میں تین گنا سے چار گنا تک اضافہ کیا اور اب ڈاکٹروں کی سہولت ہی پاکستانی عوام سے چھین رہے ہیں ۔پاکستان تحریک انصاف کے بزرجمہر جو کچھ بھی پاکستان کے ساتھ کررہے ہیں ، اسے کہیں سے بھی پاکستان دوست نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی تحلیل سے وہ ڈاکٹر بھی شدید پریشانی کا شکار ہیں ، جن کے لائسنس زائد المیعاد ہوچکے ہیں اور اب کوئی ادارہ نہیں ہے جو ان کے لائسنس کی تجدید کرسکے ۔ عملی طور پر ایسے تمام ڈاکٹر جن کے لائسنس زائد المیعاد ہوچکے ہیں ، وہ میڈیکل پریکٹس کرنے کے اہل نہیں ہیں اور ان کے خلاف عدالت میں کیس دائر کیا جاسکتا ہے ۔ بہتر ہوگا کہ عمران خان پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو بحال کریں اور اگر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں کوئی خرابی تھی تو اسے درست کریں ۔ اسی طرح پاکستان کے میڈیکل کالجوں سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات پر سے این ایل ای کی شرط ختم کی جائے اور ڈاکٹروں کو بر وقت تنخواہوں کی ادائیگی اور ان کی ترقیوں کو یقینی بنایا جائے ۔ تنخواہوں کو بروقت ادا نہ کرنے والی انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ ڈاکٹر یکسوئی کے ساتھ اپنے مریضوں کا علاج کرسکیں ۔