امریکا کو واضح جواب دیا جائے

448

پاکستان کے دیرینہ دوست امریکا کا رویہ پاکستان کے ساتھ بھی وہی ہے جو ایک دشمن کا ہوتا ہے۔ امریکا اور پاکستان کی دوستی اور اس کے ساتھ تعلقات امریکی مطالبات اور 9/11 کے بعد سے امریکی رویے کے نتیجے میں ڈومور کی اصطلاح متعارف ہوئی اور امریکیوں نے پاکستان کے ساتھ ہمیشہ یہی رویہ اختیار کیا ہے۔ اس کا ایک سبب تو پاکستانی قیادت کی کم ہمتی یا جرأت سے عاری ہونا ہے یا پھر امریکیوں کی مستقل پالیسی ہے کہ ایک اسلامی ایٹمی ملک کو ہر پہلو سے دبا کر رکھا جائے۔ بہرحال جو بھی ہو حقیقت یہی ہے کہ امریکا اپنے وعدوں کا کبھی پاس نہیں کرتا۔ اپنے محسنوں کے احسانات یاد نہیں رکھتا۔ ایک مرتبہ پھر یہی ہوا ہے پاکستان نے 35 ہزار سے زیادہ افراد کی جان کی قربانی دے کر اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرکے امریکی مطالبات پورے کیے اور امریکا کی جانب سے عدم اطمینان اور ایف اے ٹی ایف کے مطالبات پر پوری طرح عمل نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے امریکی بیان پر مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ امریکا نے دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو نظر انداز کیا ہے اور زمینی حقائق سے آنکھیں بند کر لیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی کوششوں سے خطے میں القاعدہ کا خاتمہ ہوا۔ بقول ان کے دنیا کو محفوظ مقام بنا دیا گیا۔ (پتا نہیں پھر دنیا میں بدامنی کون پھیلا رہا ہے۔) بہرحال اگر پاکستان کو امریکی رویے سے مایوسی ہوئی ہے تو قوم کو اس بیان سے مایوسی ہوئی ہے کیونکہ دو دہائیوں سے امریکیوں کا یہ رویہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے یہی رہا ہے تو پھر امریکا سے توقعات ہی کیوں باندھی گئی تھیں۔ اگر تاریخ دیکھی جائے تو ایف 16 کے پیسے لے کر مکر جانے والا بھی امریکا تھا اور پاکستانی ایٹمی پروگرام میں رکاوٹیں بھی امریکا نے ڈالی تھیں۔ پریسلر ترمیم کے تحت ہر سال امدادی رقوم کی ادائیگی سے قبل ایک سرٹیفکیٹ دینا پڑتا تھا کہ پاکستان ایٹم بم نہیں بنا رہا ہے۔ تازہ الزام یہ ہے کہ حکومت کالعدم لشکر طیبہ اور جیش محمد کو پیسہ جمع کرنے اور لوگوں کو بھرتی کرنے اور ان کی تربیت سے روکنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانے ختم نہیں کیے گئے۔ امریکیوں کے مطالبات پر پاکستانی حکام نے سوات، وزیرستان اور قبائلی علاقوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ اپنے ہی ملک کے باشندوں کے خلاف آپریشن کیے گئے۔ مالیاتی نظم و ضبط کے نام پر اپنے ملک کے مالیاتی اداروں کا نظام تباہ کردیا۔ لیکن امریکا بہادر پھر بھی خوش نہیں۔ امریکا کو افغانستان میں جو ہزیمت ہو رہی ہے۔ اس کی خجالت مٹانے کے لیے اسے کوئی تو چاہیے… چونکہ اسے یہ معلوم ہے کہ پاکستانی حکام کبھی نو مور نہیں کہہ سکتے اس لیے ڈو مور کہتے رہو۔ اس بات پر بھی طویل بحث ہو چکی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی ہے یا امریکی… اور بہت سے لوگ اپنے مناصب سے ہٹنے کے بعد اس جنگ کو امریکی جنگ قرار دے کر اس سے جلد از جلد نکلنے کا مشورہ دے چکے ہیں۔ اگر امریکیوں کے بیس برس کے رویے کوسامنے رکھیں تو ان بیس برسوں میں پاکستان نے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ امریکی رویے کی وجہ سے پاکستان کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی ہے۔ اب تو بھارت نے بھی یہی سیکھ لیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہر معاملے میں ڈو مور کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ امریکی حکام کا تازہ بیان بھی ایسا لگتا ہے کہ بھارت میں تیار ہوا ہے۔ امریکا کو لشکر طیبہ اور جیش محمد سے کیا تکلیف… صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی بیان کی پشت پر بھارتی ذہن کار فرما ہے۔ اگرچہ پاک فوج کے کور کمانڈرز نے بھی کہا ہے کہ فوج کی قربانیوں کے ثمرات کو ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن اس کو زیادہ تر لوگوں نے آزادی مارچ اور ملک کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں دیکھا ہے۔ فوج کے بیان کو امریکی الزام کے حوالے سے بھی دیکھا جانا چاہیے۔ لیکن اب پاکستانی قیادت کو امریکی بیانات اور ڈو مور کے مطالبات کا راستہ بند کر دینا چاہیے ایک مرتبہ بہت واضح انداز میں نو مور کہنے کی ضرورت ہے۔ امریکا خود دنیا بھر میں جنگیں چھیڑ رہا ہے یا جنگوں کی پشت پر ہے اس کو امن کی بات کرنا زیب نہیں دیتا۔